ایک شخص 15شعبان کو ہر سال زکات کا حساب کرتا ہے ،لیکن اس سال کسی وجہ سے حساب نہ کرسکا، اب 20 شعبان کو حساب کرنا چاہتا ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ 18 شعبان کو رہائش کا گھر فروخت کیا ،کیا اس گھر کے پیسوں پر اس سال زکات واجب ہے یا آئیندہ سال واجب ہوگی؟
اگر کوئی شخص پہلے سےصاحبِ نصاب ہو اورقمری سال کے حساب سےکسی مقررہ تاریخ کو زکوۃ ادا کرتا ہو اور زکوۃ کی مقررہ تاریخ کے بعد اگر کوئی مال ملکیت میں آجائے تو اس سال زکوۃ کے حساب میں اس بعد میں آنے والے مال کو شامل نہیں کیا جائے گا،بلکہ آئندہ زکوۃ کا سال پورا ہونے پر جو مال موجود ہو اس کی زکوۃ ادا کی جائے گی۔
مذکورہ بالا تفصیل کی روسے صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کے پاس 15 شعبان کے بعد جو رقم گھر کے فروخت کرنے سےحاصل ہوئی ہے،اس کو اس سال کی زکوۃ میں نہیں شامل کیا جائے گا،البتہ آئندہ زکوۃ کا سال پورا ہونے پر اگریہ رقم موجود ہو اس کی زکوۃ ادا کی جائے گی۔
في الفتاوى الهندية:
"و من كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالًا من جنسه ضمّه إلی ماله و زکّاه سواء کان المستفاد من نمائه أولا و بأي وجه استفاد ضمّه سواء كان بمیراث أو هبة أو غیر ذلك."
(كتاب الزكاة،الباب الأول،ج:1،ص:175،ط:مکتبه حقانیه)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144408101487
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن