بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مال میراث میں انشورنس کی رقم شامل ہونے حکم


سوال

میری والدہ کا آج سے تقریبا 12 سال پہلے انتقال ہوچکاہے ، انہوں نے میری خالہ کے ساتھ مل کرشراکت داری میں ایک آفس لیا تھا ، چار لاکھ خالہ کے تھے اور دو لاکھ میری والدہ کے تھے چھ لاکھ کا آفس تھا۔جو دو لاکھ میری والدہ  نے دیے تھے میرے گمان کے مطابق اس میں کچھ رقم حرام تھی ، اس لئے کہ میری والدہ نے انشورنس کروایا تھا ، اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ والدہ نے انشورنس کی دو پالیسیاں لی تھیں ، جن کے ہر سال ساڑھے ستائیس ہزار بھرتی تھیں ، اس کے بدلے انشورنس والے والدہ کو کچھ رقم دیتے تھے پھر جو رقم ان پالیسیوں سے ملی تھی ان میں سے بیس بیس ہزار کے والدہ  نے دو سیونگ سرٹیفیکٹ خریدے تھے جو دس سال بعد  "Mature"ہوئے تو ان میں سے ہر ایک سرٹیفیکٹ کے بدلے والدہ کو اٹھاسی اٹھاسی ہزار روپے ملے تھے ۔ تو ان دولاکھ میں امی نے ان دو سرٹیفیکٹ کے پیسے ملائے تھے اور باقی اپنے پاس  سے سونا وغیرہ بیچ کر دولاکھ پورے کئے تھے ۔ میں نے اپنی خالہ اور بہن سے اس حوالہ سے بات کی کہ امی نے یہ رقم کہاں سے دی تھی تو ان کا جواب یہ تھا کہ امی نے یہ رقم سونا بیچ کر پوری کی تھی ۔ میر ی عمر اس وقت  20 سال سے کم تھی ، مجھے بھی صحیح سے یاد نہیں لیکن غالب گمان یہی ہے کہ سرٹیفیکٹ "Mature" ہونے کے بعد جو رقم نکلی اسی سے اس دکان میں کچھ پیسے ڈال کر حصہ لیا ۔

اب ہر مہینے اس آفس کا کرایہ آتا ہے وہ حرام ہے یا حلال ؟اور اس کا وارث کون ہے ؟والدہ کے انتقال کے وقت ورثاء میں شوہر ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی حیات تھے ۔ نانا نانی پہلے فوت ہوگئے تھے ۔

میرے پاس یہ پیسے جمع ہوتےہین لیکن سمجھ نہیں آتا ان کا کیا کروں ؟ اور ان پیسوں میں سے تقریبا پینتیس ہزار روپے خرچ بھی کرچکا ہوں ، اور شروع شروع میں یہ پیسے والد صاحب کو دیا کرتا تھا لیکن والد صاحب کے بیمار ہونے کے بعد اپنے  پاس جمع کررہا ہوں ۔ اب میں ان پیسوں  کا کیا کروں؟

جواب

واضح رہے کہ انشورنس پالیسی لینا "جوا" اور "سود"  پر مشتمل ہونے کی وجہ  سے ناجائز  و حرام ہے ۔  اگر کسی نے لے لی ہو تو جتنی رقم خود جمع کرائی ہو اس سے زائد رقم سود ہونے کی وجہ  سے لیناشرعاً  جائز نہیں ہے۔  اگر زائد رقم بھی وصول کرلی ہو تو وہ رقم واپس کرنا ضروری ہوتا ہے اور اگر واپس کرنا ممکن نہ ہوتو ثواب کی نیت کے بغیر وہ رقم صدقہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔  پس صورتِ مسئولہ میں سائل  اور دیگر وہ ورثاء جن کے غالب گمان کے مطابق  والدہ نے   واقعۃً انشورنس کی رقم سے  شراکت  داری قائم کر کے پراپرٹی خریدی تھی  تو ان کے انتقال کے بعد   اس رقم کو   اپنی ملکیت میں لینا جائز نہیں ہے، لہذاسائل  اور مذکورہ ورثاء کے لئے  وراثت میں حاصل ہونے والے اپنے حصہ شرعی کی رقم  سے اس سودی رقم کو منہا کرنا ضروری ہے نیز  سودی رقم  کو ثواب کی نیت کے بغیر مستحقِ زکات افراد پر صدقہ کرنا لازمی ہے اور   بقیہ  رقم  مذکورہ ورثاء میں ان کے حصص شرعیہ کے اعتبار  سے تقسیم کردی جائے ۔ لیکن دیگر وہ ورثاء جن  کو اس بات یقین ہے کہ  پراپرٹی میں لگائی گئی مذکورہ رقم انشورنس کی نہیں بلکہ  زیور فروخت کرکے  شامل کی گئی تھی ، ان کے لئے ترکہ سے   حاصل شدہ اپنے حصہ شرعی  کی کل   رقم استعمال کرناجائز ہے  ، کسی قسم کی کٹوتی اور صدقے کی ضرورت نہیں ہے ۔

مرحومہ کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحومہ کے ترکہ میں  سے اس کے حقوقِ  متقدمہ  یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد (اگر شوہر نے ادا نہ کیے ہوں)، مرحومہ کے ذمہ   اگر کوئی قرض ہے تو اسے کل ترکہ  میں سے ادا کرنے کے بعد، مرحومہ نے اگر کوئی  جائز وصیت کی ہو تو اسے  ایک تہائی  ترکہ میں سے نافذ کرکے  باقی کل منقولہ وغیر منقولہ  ترکہ کو 4 حصوں میں تقسیم کرکے 1 حصہ مرحومہ کے شوہر کو، 2 حصے بیٹے کو اور 1حصہ بیٹی کو دیا جائے ۔

میت:4

شوہر بیٹا بیٹی
121

یعنی کل مالیت مثلا 100روپے میں سے 25 روپے شوہر کو ، 50 روپے بیٹے کو اور 25 روپے بیٹی کو ملیں گے ۔

نیز مذکورہ آفس میں اگر حرام رقم شامل ہوئی تھی تو اسے بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کرکے اس سے حاصل ہونےوالا کرایہ (منافع) کا استعمال کرنا جائز ہے اور مورثہ (ماں)کےانتقال کے وقت سے لیکر اب تک کرایہ کی مد میں جتنی رقم وصول ہوئی ہے  اس رقم  کو بھی مذکورہ ورثاء میں  ان کے حصص شرعیہ کے اعتبار سے تقسیم کرنا لازم ہے  ۔ نیز اس کرایہ سے جو رقم سائل نے استعمال کرلی اگر دیگر ورثاء اسے معاف کردیں تو ٹھیک ، ورنہ یہ رقم بھی سائل کے ذمہ ہوگی   ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويردونه على أربابه إن عرفوهم، وإلا يتصدقوا به؛ لأن ‌سبيل ‌الكسب ‌الخبيث التصدق إذا تعذر الرد."

(فتاوی شامی ،کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی البیع،ج:6،ص:385،ط:ایچ ایم سعید)

وفیہ ایضا:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال ‌وجب ‌رده ‌عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(فتاوی شامی ،مطلب فیمن ورث مالا حراما،ج:5،ص:90،ط:ایچ ایم سعید)

وفیہ ایضا:

"[مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه]"(قوله اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام."

(فتاوی شامی ، مطلب اذا اکتسب حراما ثم اشتری فہو علی خمسۃ اوجہ ،ج:5،،ص:235،ط:ایچ ایم سعید)

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے  :

"تقسيم حاصلات ‌الأموال ‌المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم."

(مجلۃ الاحکام العدلیۃ ، المادۃ ؛1073، الفصل الثانی : فی بیان کیفیۃ التصرف فی الاعیان المشترکۃ ، ص:206، ط:کارخانہ تجارت کتب ، آرام باغ کراچی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308100956

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں