زید نے ایک کنسٹرکشن کاکام شروع کیا،کام شروع کرنے سے پہلے ان کوبکرنے فون کرکے کہاآپ مجھے کام کرنے کے لیے کھڑاکرلیں جب کہ زید کواس بات کاعلم تھاکہ بکرکویہ کام نہیں آتا،لیکن ہمدردی اوررشتہ داری کی وجہ سے زید نے بکرکوسپروائزرکھڑاکردیااورکام شروع کردیاگیا،زید نے بکرکی تنخواہ 50روپے فٹ مزدوری طے کردی،اورکام مکمل ہوگیا۔
اس کےبعد بکرنے پھر کام کامطالبہ کردیا، ایک سال بعد نیاکام شروع کردیا،لیکن اس دفعہ زیدنے بکرسے 50روپے فٹ مزدوری طے نہیں کی،اوریہ کام بھی مکمل ہوگیا،کام مکمل ہونے کے بعد زیدنے بکرکوجو اس نے پہلے والےکام میں مزدوری طے کی تھی اُسی حساب سے بکرکومزدوری دے دی،بکرنے اعتراض کیاکہ میں مزدوری 150روپے فٹ لوں گا،زید کے ذہن میں تھاکہ مزدوری طے ہوچکی ہے،لیکن بکراس پرراضی نہیں تھا۔
زید نے بازارسے ایک ٹھیکے دارکوبلاکرکام کرنے کاکہاجس طرح بکرنے کام کیاتھا،تواسی ٹھیکے دارنے منہ سے خودہی50روپےفٹ پرکام کرنے کی رضامندی ظاہرکی ،جس پرزیدنے بکرسے کہاکہ آج بھی دوسراکام مکمل ہونےکے بعد مزدوری کاریٹ یہی ہے،مگربکراس پرراضی نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس معاملہ کاحل بتایاجائے؟
صورتِ مسئولہ میں دوسرے کام کی اجرت پہلے سے طے نہ کرنے کی بنا پربکرکو بازار کے حساب سے اجرت ملے گی یعنی اس طرح کا کام کرنے پر بازار میں جتنی اجرت رائج ہو ،بکر اتنی ہی اجرت کا مستحق ہے۔
رد المحتارمیں ہے:
"و شرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة."
(كتاب الاجارة، شروط الاجارة، ج:6، ص:5، ط:سعيد)
ايضاً:
"(الفاسد) من العقود (ما كان مشروعًا بأصله دون وصفه، و الباطل ما ليس مشروعًا أصلاً) لا بأصله و لا بوصفه (و حكم الأول) و هو الفاسد (وجوب أجر المثل الاستعمال) لو المسمى معلوماً، ابن كمال. "
(كتاب الاجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:6،ص:45، ط:سعيد)
أيضاً:
"(تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل."
(كتاب الإجارة، باب إجارة الفاسدة، ج:6، ص:46، ط:سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144512101338
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن