بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مالک کی موجودگی میں کو ئی چیز ہبہ کرنا


سوال

 سن 1983  میں میرے  والد کا انتقال ہوگیا  تھا ہمارے گھر میں کوئی کام نہیں کرتاتھا،  ہم چار بھائی چار بہنیں اور والدہ تھیں ،میں نے 3 ہزار ادھار لے کر کاروبار شروع کیا اور اللہ نے اس میں برکت دی اور میں نے 3  دکانیں خرید لیں پھر یہ دکانیں  میں نے والدہ کے نام کی  تھیں محبت میں ،مالک بنانا مقصود نہیں تھا ، پھر میرے بھائی چوں کہ  بے روزگار تھے، میں نے ان کو بھی اپنے ساتھ دکانوں پر لگادیا ،1990 میں میری طبیعت خراب ہوگئی اور میں ہسپتال میں ایڈمٹ ہوگیا تو میرے بھائی  دکان کو سنبھالنے لگے پھر میری  والدہ  جب وہ ضعیف تھیں اور بیمار تھیں  تو انہوں نے ایک دکان  بڑے بھائی کو جس میں وہ بیٹھتاتھا  وہ اس کو دے دی یہ کہہ کر  کہ اس  گھر میں تیراکوئی حصہ نہیں میں احتراما خاموش ہوگیا، یہ دکان  جو الدہ نے بڑے بیٹے کو دی تھی وہ باقی دو دکانوں سے الگ ہے ،  پھر جب میرے اور میرے چھوٹے  بھائی  کی شادی ہوگئی تو چھوٹے بھائی  نے کہاکہ دکان میں مجھے حصہ دو  تو میں نے آدھا حصہ اس کو دے دیا مالک بناکر، اب والدہ کا انتقا ل ہوگیاہے  بڑے بھائی نے دکان فروخت کرلی اور پیسہ اپنے پاس رکھ لیا ۔

1۔ سوال یہ ہے کہ  آیا یہ دکان جو میری  ماں نے بڑے بھائی  کودی تھی وہ اس کی ہے یانہیں؟

2 ۔ میں نے جو آدھا حصہ  دکان کا چھوٹے بھائی کو دیاہے وہ اس کی ہوگئی کہ نہیں پوری مکمل  ایک دکان دی ہے ۔  

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کی والدہ   نے سائل کے موجودگی میں  سائل کی  ایک دکان اپنے بڑے  بیٹے کو   دی اور سائل خاموش رہاتو چوں کہ مذکورہ دکان سائل کی والدہ کی ملکیت نہیں تھی اس لیے سائل کی والدہ کا سائل کی دکان کو اپنے بڑے بیٹے کو  دینے سے ان کی ملکیت نہیں ہوئی بلکہ دکان  بدستورسائل کی ملکیت ہے اور سائل کی بھائی کا اس کو بیچنا شرعاجائز نہیں تھا ،سائل کے  بھائی پر لازم ہے کہ   دکان کی فروخت سے حاصل شدہ رقم سائل کو لوٹائے ۔

2۔ سائل نے  جودکان اپنے چھوٹے بھائی  کو  مالک بناکر دیاہے ،وہ دکان سائل کے چھوٹے بھائی  کی ملکیت ہے اس میں سائل کا حق نہیں ہے  ۔

ہندیہ  میں ہے:

"ومنها أن يكون مملوكا للواهب فلا تجوز هبة مال الغير بغير إذنه لاستحالة تمليك ما ليس بمملوك للواهب."

(كتاب الهبة (4/374ط:رشدیہ )

الدرالمختار میں ہے:

"لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته۔"

(كتاب الغصب 6/200ط:سعید)

امداد الفتاوی  میں ہے :

سوال (30 ) ایک  شخص نے جائیداد کا کچھ حصہ اپنے لڑکے کے نام سے خرید کر انتقال کیا تووہ حصہ  سب ورثہ میں تقسیم ہوگا یاکیا کسی کے نام سے خریدنا ہبہ سمجھا جاسکتاہے ، یا یہ فعل مہمل ہے ، آج کل  یہ معاملہ بکثرت رائج ہے ، اس کی طرف پوری توجہ ضروری ہے ۔

جواب : کسی کے نام سے جائیداد خرید نے کے بارے میں میں نے بہت دفعہ غورکیا ، اور غالبا ایک دوبار لکھابھی ہے ، ہبہ تو یہ کسی طرح ہونہیں سکتا ، کیوں کہ ہبہ تو ہوتاہے بعد ملک کے اور یہاں پہلے سے ملک نہیں ، اس اشترا ہی سے خود مالک ہی ہواہے ، اور بعد اشتراء کوئی  عقد پایا نہیں گیا ،البتہ اگر بعد اشتراء کے کوئی تصرف موجب تملیک  پایاجاوے ، تو بیشک ملک اس کی ہوجاتی ، واذلیس فلیس ، اس لیے یہ فعل مہمل ہے ، اگر کسی کو  یہ شبہ ہو کہ یہ اشتراء فضولی ہے تو اس مشتری لہ کی اجازت کے بعد اس کی ملک ہوجانا چاہیے ، جواب یہ ہے کہ بیع للغیر میں تو اجاز ت غیر سے اس غیر پر نفاذ ہوتاہے ، مگر شرا ء للغیر میں خود مشتری پر نفاذ ہوتاہے ، کذافی الدر المختار ، پس  اس غیر کی تملیک کے لیے عقد جدید کی حاجت ہوگی فقط ۔ آپ بھی غور کیجئے ۔ 

(کتاب البیوع 3/38 ط:مکتہ دارالعلوم کراچی ) 

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"مصلحتاً بیٹے کے نام پرمکان خرید نے سے بیٹا اس مکان کا مالک شمار ہوگا یا نہیں ؟:(سوال ۳۵۹)عبدالقادر نے اپنے پیسوں  سے ایک مکان خریدا اور سرکاری قانون سے بچنے کے لئے اس مکان کا دستاویز اپنے ایک بیٹے عبدالرزاق کے نام کا بنوایا، نہ بخشش کرنا مقصود تھا اور نہ خریدنے کے بعد وہ مکان عبدالرزاق کو حوالہ کیا زندگی بھر عبدالقادر ہی اس مکان پرقابض رہے اور وہی اس کا انتظام کرتے رہے اور اس کی آمدنی وہی استعمال کرتے رہے ، عبدالقادر کا انتقال ہو گیا وفات کے بعد ان کا بیٹا عبدالرزاق اس مکان پر قابض ہوگیا اور خود کو اس کا مالک بتاتا ہے اوردیگرورثاء کو اس میں  سے حصہ دینے کے لئے صاف انکار کرتا ہے اور دعویٰ کرتاہے کہ یہ مکان میرا ہے ، کیا عبدالرزاق کی بات صحیح ہے؟ کسی مصلحت سے باپ اپنے کسی بیٹے کے نام سے جائیدادخریدے تو بیٹا تنہا اس کا مالک بن سکتا ہے ؟ یا وہ باپ ہی کی ملک ہو کر تمام وارثوں  میں  تقسیم ہوگی؟ بینو اتوجروا۔

(الجواب)والداگر کسی مصلحت سے اپنے کسی بیٹے کے نام سے مکان خریدے تو وہ بیٹا محض اس کے نام پر خریدنے کی وجہ سے شرعی طورپر اس مکان کا مالک شمار نہ ہوگا۔امداد الفتاویٰ میں  ہے ۔(سوال  )کیا فرماتے ہیں  علماء دین رحمہم اﷲ ا س مسئلہ میں  کہ مثلاً زید نے اگر اپنے بیٹے عمرو کے نام کسی مصلحت سے بعوض اپنے نام کے کوئی معاش خرید کی جیساکہ فی زماننا اکثر رائج اورعرف میں  بنا م اسم فرضی مشہور ہے تو آیا وہ معاش زید کی ملک ہوگی یاعمرو کی اور  زید کو اس میں  اختیار نقل و تصرف مثل بیع وہبہ وغیرہ کا ہے یا نہیں ؟ بینواتوجروا۔(الجواب)رکن بیع کا ایجاب وقبول ہے جن کے درمیان ایجاب وقبول ہوا مبیع اسی کی ملک ہوگی ، پس زید نے اگرچہ بمصلحت اپنے بیٹے کے نام سے معاش خرید کی زید ہی کی ملک ہوگی نظیر اس کی بیع تلجیہ ہے کہ دو شخص کسی وجہ سے بیع ظاہرکریں  اور مقصود بیع نہ ہو ، سو وہ مفید ملک نہیں  ہوتی تو جس کے ساتھ ایجاب و قبول تک نہ ہو ا اور نہ ا س کے ہاتھ بیچنے کا مقصد ہے نہ اس کے لئے مشتری کا خرید نے کا قصد ہے اس کی ملک کیونکر ہوسکتی ہے ؟ فی الدر المختار وبیع التلجیۃ وھو ان یظھر اعقداً وھما لا یرید انہ… لخوف عدو وھو لیس ببیع فی الحقیقۃ بل کالھزل … پس مشتری ہی کی ملک ہوگی اور اس کو تصرفات مالکانہ جائز ہوں  گے تاوقت یہ کہ کوئی سبب صحیح موجب انتقال ملک جس سے عمر کی ملک ہوجائے نہ پایا جاوے…الخ (امداد الفتاویٰ ج۳ص۱۷، کتاب البیوع ، مطبوعہ پاکستان) لہذا صورت مسئولہ میں  اگر عبدالرزاق انتقال ملک کا کوئی صحیح سبب شرعی ثبوت کے ساتھ پیش نہ کرسکے تو محض اس کے نام پر مکان خریدنے کی وجہ سے عبدالرزاق تنہا اس مکان کا مالک نہیں  بن سکتا ، یہ مکان مرحوم عبدالقادر ہی کاہوگا اور ان کے ترکہ میں  شامل ہو کر تمام ورثاء میں  شریعت کے مطابق تقسیم ہوگا۔ فقط واﷲ اعلم بالصواب ۔"

( کتاب الہبۃ 9/315ط:دارالاشاعت )

بدائع الصنائع میں ہے :

  للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف، شاء.

(كتاب الدعوى،فصل في بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل6/264،ط:سعيد)

الدر المختار میں ہے :

(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها،

(كتاب الهبة5/690ط:سعید)

درر الحکام علی حیدر  میں ہے:

 لكن السكوت فيما يلزم التكلم به إقرار وبيان، وذلك كما إذا رأيت أحدا يتصرف في شيء تصرف المالك بلا إذن منك وسكت بلا عذر يعد ذلك إقرارا منك بأنك غير مالك له.

(المادة 67) لا ينسب إلى ساكت قول لكن السكوت في معرض الحاجة بيان66/1ط:دار الجيل)

مجمع الضمانات میں ہے:

ثم الإذن كما يثبت بالصريح يثبت بالدلالة كما إذا رأى عبده يبيع ويشتري يصير مأذونا عندنا 

(الأسباب الموجبة للحجر427/1ط: دار الكتاب الإسلامي)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100069

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں