بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مالیت فروخت پر کمیشن دینے کی صورت میں ٹیکس کی رقم مالیت فروخت میں شامل ہوگی یا نہیں ؟


سوال

ہم نے اپنی فیکٹری کا سامان  فروخت کرنے کے لیے ایک شخص کو رکھا ہوا ہے ،جو کہ کمیشن پر کام کرتا ہے۔اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک لاکھ روپے کا مال فروخت کرتے ہیں ،تو ان کو 4 فیصد کمیشن ملتا ہے،حکومت نے ایک لاکھ روپے کی فروخت پر اٹھارہ ہزار روپے ٹیکس مقرر کیا ہوا ہے ،لہذا خریدار پارٹیاں ہمیں ایک لاکھ روپے والے بل کی مد میں  ایک لاکھ اٹھارہ ہزار روپے ادا کرتی ہیں ۔

اب کمیشن پر کا م کرنے والا شخص یہ مطالبہ کررہا ہے کہ ایک لاکھ اٹھارہ ہزار روپے کا 4 فیصد کمیشن دیا جائے ،جب کہ میں (فیکٹری کامالک) کہہ رہا ہوں کہ اٹھارہ ہزار روپے تو میں حکومت کو ٹیکس کی مد میں جمع کراتا ہوں ،لہذا آپ کو چار فیصد کمیشن ایک لاکھ روپے سے ملے گا،اور اٹھارہ ہزار روپے میں سے کسی قسم کا کمیشن نہیں ملے گا۔

اب معلوم یہ کرنا ہے کہ کمیشن پر کام کرنے والے شخص کاٹیکس کے  18000روپے پر 4 فیصد کمیشن کا مطالبہ کرنا شرعاً صحیح ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل اپنی  پراڈکٹ کی قیمت  میں ٹیکس کی رقم کی الگ سے صراحت کرکے پارٹیوں سے وصول کرتا ہے، تو اس  پر لازم ہوتا ہے کہ وہ یہ وصول کیا ہوا ٹیکس حکومت کو ادا کردے،ایسی صورت میں کمیشن پر کام کرنے والے شخص کےلیے پارٹیوں سے لی گئی ٹیکس کی رقم پر اپنے 4 فیصد کمیشن کا  مطالبہ کرنا درست نہیں ہوگا۔

درر الحكام فی شرح  مجلۃ الاحکام  میں ہے:

"‌كل ‌يتصرف ‌في ‌ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير."

( الكتاب العاشر الشركات ،الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالحيطان والجيران، الفصل الأول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الأملاك، ج:3،ص:201، ط: دار الجيل)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"(فأما) الذي يرجع إلى أحد البدلين وهو الثمن فينقسم في حق البدل، وهو الثمن خمسة أقسام: بيع المساومة وهو مبادلة المبيع بأي ثمن اتفق."

(  کتاب البیوع، فصل فی شرائط رکن البیع،ج:5،ص:134، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في أجرة الدلال [تتمة]

قال في التتارخانية: وفي ‌الدلال ‌والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

(كتاب الاجارة، ج:6، ص:63، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(قوله إن دلني إلخ) عبارة الأشباه إن دللتني. وفي البزازية والولوالجية: رجل ضل له شيء فقال: ‌من ‌دلني ‌على ‌كذا فهو على وجهين: إن قال ذلك على سبيل العموم بأن قال: من دلني فالإجارة باطلة؛ لأن الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر، وإن قال على سبيل الخصوص بأن قال لرجل بعينه: إن دللتني على كذا فلك كذا إن مشى له فدله فله أجر المثل للمشي لأجله؛ لأن ذلك عمل يستحق بعقد الإجارة إلا أنه غير مقدر بقدر فيجب أجر المثل، وإن دله بغير مشي فهو والأول سواء."

(كتاب الإجارة،‌‌باب فسخ الإجارة،مطلب ضل له شيء فقال من دلني عليه فله كذا،ج:6،ص:95، ط: سعيد)

جامع الفصولین میں ہے:

"وتجب الدلالية علی البائع اذ قبل بأمر البائع ولو سعی الدلال بينهما فباع المالك بنفسه يعتبر العرف فتجب الدلالية علی البائع أو علی المشتري أو عليهما بحسب العرف."

(أحكام الدلال وما يتعلق به،ج:2،ص:153،ط:اسلامي كتب خانه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101127

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں