۱-ہمارے والد صاحب کی اپنی ذاتی دکان تھی، انہوں نے وہ دکان اپنے دو بیٹوں کو دے دی تھی، لیکن ان کے نام نہیں کی تھی اورنہ ہی ان کو مکمل اختیارات دیے تھے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ دکان والد صاحب کے تمام ورثا میں تقسیم ہوگی یا ان دونوں بھائیوں کی ہوگی؟
۲- والد صاحب کا 2 اپریل 2017ء میں انتقال ہوا۔ ان کے ورثا میں بیوہ، چھ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ کل سات بیٹے تھے ایک کا انتقال والد کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا، نیز مرحوم کے والدین کا انتقال بھی ان کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ جائیداد کی شرعی تقسیم کس طرح ہوگی؟
۱- صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد نے اگر واقعۃًاپنی زندگی میں مذکورہ دکان اپنے دو بیٹوں کو صرف چلانے کے لیے دی تھی، اور اس پر مالکانہ قبضہ واختیار نہیں دیا تھا، تو یہ دکان ان دونوں بیٹیوں کی ملکیت میں نہیں آئی، لہذا یہ دکان والد کے ترکہ میں شامل ہو کر مند رجہ ذیل تقسیم کے حساب سے ورثاء میں تقسیم ہوگی۔
۲- مرحوم کی متروکہ جائیدا کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی کفن دفن کے اخراجات نکالنے کے بعد، اگر مرحوم پر کوئی قرضہ ہے تو اس کو ادا کرنے کے بعد، اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو اس کو باقی مال کے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 120 حصوں میں تقسیم کر کےمرحوم کی بیوہ کو 15 حصے ،ہر ایک بیٹے کو 14 حصے اور ہر ایک بیٹی کو7 حصے ملیں گے۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
مرحوم (سائل کے والد):120/8
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
8 | 7 | ||||||||
15 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 | 7 |
فیصد کے اعتبار سے بیوہ کو ٪12.5، ہر ایک بیٹے کو ٪11.667 اور ہر ایک بیٹی کو ٪5.83 کو ملیں گے۔
مبسوطِ سرخسی میں ہے:
"ثم الملك لا يثبت في الهبة بالعقد قبل القبض.....وحجتنا في ذلك ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم: «لا تجوز الهبة إلا مقبوضة» معناه: لا يثبت الحكم، وهو الملك."
(كتاب الهبة، ج:12، ص: 48، ط: دار المعرفة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100489
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن