ایک شخص ایک کمپنی میں آن لائن کام کررہا ہے ، یہ شخص منیجرہے اور کسی اور کو مالک کی اجازت کے بغیرکام پر نہیں لگاسکتا، اور اس شخص نے چار اور لوگوں کو اس کمپنی میں لگایا ہے ، مگر کمپنی کے مالک کی اجازت کے بغیر، اور ان چار لوگوں سے یہ بات طے کی ہے کہ آدھی تنخواہ تمہاری ہے اور آدھی میری ہے ۔کیا اس شخص کے لیے یہ پیسے حلال ہیں ؟اگر حلال نہیں تو جو رقم لی ہے اس کا کیا حکم ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ کمپنی کے مالک کی جانب سے منیجر کو مالک کی اجازت کے بغیر ملازم لگانے کی ممانعت تھی تو منیجر کا مالک کی اجازت کے بغیر چار افراد کو ملازم رکھنا شرعاً دھوکہ دہی کی بناء پر ناجائز عمل تھا،اور ان چاروں افراد کی ملازمت وہ مالک کی اجازت پر موقوف ہے ، اگر مالک کی جانب سے اجازت مل جاتی ہے تو ان کی ملازمت اور حاصل کردہ تنخواہ جائز ہوگی ، نیز جس تنخواہ کے مالک کی اجازت کے بعد یہ ملازمین مستحق ٹھہریں گے اس تنخواہ میں سے منیجر کا آدھی رقم وصول کرنا جائز نہیں ، بلکہ جو رقم وصول کی ہو وہ بھی ان افراد کو واپس کردی جائے ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"مقصرة يعمل فيها القصارون ولرجل فيها أحجار يؤاجرها منهم فعمل بها قصار ولم يشارط صاحب الأحجار بشيء فإن لم يكن معروفا عندهم أن من شاء عمل عليها وأدى الأجر فلا أجر عليه إذا عمل بلا إذن رب الأحجار."
(ج:4،ص:427،ط:دارالفکر بیروت)
مشكاة المصابيح ميں هے:
"و عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا لاتظلموا ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."
(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية،ج:2،ص:889،ط:المكتب السلامي)
ترجمہ : اور حضرت ابو حرہ رقاشی رضی اللہ عنہ اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" خبردار!کسی پر ظلم نہ کرنا، جان لو! کسی بھی دوسرے شخص کا مال اس کی مرضی وخوشی کے بغیر حلال نہیں"۔
مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:
"(المادة 96) : لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه."
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية،ص27،ط؛دار الجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101889
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن