بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مالک کا اپنی زمین کو ٹھیکہ پر دینے کے بعد دوسرے ٹھیکہ دار سے زیادہ پیسے ملنے کی بنیاد پر پہلا عقد ختم کرنے کا حکم


سوال

میں نےاپنی  زمین ٹھیکہ پر دی ہوئی ہےاور172000  فی ایکڑ کے حساب سے  معاہدہ طے ہوا ہے ،میں بہت مقروض بھی ہوں، اب ایک دوسری پارٹی مجھ سے یہ زمین دو لاکھ ٹھیکہ پر لینے کے لیے تیار ہے،اور  کچھ رقم ایڈوانس بھی دینے کو تیار ہے جس سے میرا قرض کچھ نہ کچھ ادا ہو جائے گا، لہذاکیا میں 172000 والامعاہدہ بوجۂ قرض توڑ سکتا ہوں؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل اپنی زمین ایک لاکھ بہتر ہزار روپے کا معاہدہ کرکے ٹھیکہ پر دے چکا ہے،اس لیے اب مالک زمین کا مذکورہ  ٹھیکہ کی مدت مکمل ہونے سے قبل ٹھیکہ دار کی رضامندی کے بغیر معاملہ ختم کرکےکسی دوسری جگہ یہ زمین ٹھیکہ پر دیناجائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ عقدِ اجارہ ہے،اور اجارہ تام ہونے کے بعد فریقین پر معاہدہ کی پابندہ لازم ہوتی ہے، کوئی ایک فریق دوسرے فریق کی اجازت و رضامندی کے بغیر اس معاملہ کو ختم نہیں کرسکتا،لیکن اگر مذکورہ ٹھیکہ دار برضاورغبت یہ معاملہ فسخ کرنے پر راضی ہوجائےتو پھر دوسرے ٹھیکے دار کے ساتھ معاہدہ کرنا جائز ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما صفة الإجارة فالإجارة عقد لازم إذا وقعت صحيحة عرية عن خيار الشرط والعيب والرؤية عند عامة العلماء، فلاتفسخ من غير عذر وقال شريح: إنها غير لازمة وتفسخ بلا عذر؛ لأنها إباحة المنفعة فأشبهت الإعارة، ولنا أنها تمليك المنفعة بعوض فأشبهت البيع وقال - سبحانه وتعالى-:{أوفوا بالعقود}والفسخ ليس من الإيفاء بالعقد وقال عمر: - رضي الله عنه - " البيع صفقة أو خيار " جعل البيع نوعين: نوعا لا خيار فيه، ونوعا فيه خيار، والإجارة بيع فيجب أن تكون نوعين، نوعا ليس فيه خيار الفسخ، ونوعًا فيه خيار الفسخ؛ ولأنها معاوضة عقدت مطلقة فلاينفرد أحد العاقدين فيها بالفسخ إلا عند العجز عن المضي في موجب العقد من غير تحمل ضرر كالبيع."

(كتاب الإجارة، فصل في صفة الإجارة، ج:4، ص:201، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما) (حكمها) فوقوع الملك في البدلين ساعة فساعة إلا بشرط تعجيل الأجرة.

(وأما) (كيفية انعقادها) . فالإجارة عندنا تنعقد فيما بين المتعاقدين للحال وتنعقد ساعة فساعة في حق الحكم وهو الملك على حسب حدوث المنفعة، كذا في محيط السرخسي 

(وأما) (صفتها) فهي عقد لازم إذا كانت صحيحة عارية عن خيار الشرط والعيب والرؤية عند عامة العلماء، هكذا في البدائع  ."

(كتاب الاجارة، الباب الاول، ج:4، ص411، ط:دارالفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407101787

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں