ایک شخص کی زمین میں ایک قبر ہے اور یہ قبر کئی سالوں سے موجود ہےاور یہ بھی پتہ نہیں کہ یہ کس کی قبر ہے، وہاں کے رھائشی لوگوں کو بھی پتہ نہیں ہے کہ یہ کس کی قبر ہےاور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ شہید کی قبر ہے ، لوگ اس کا احترام بھی کرتے ہیں، البتہ یہاں کوئی مقبرہ نہیں ہے، اب مذکورہ زمین کا مالک اس زمین کو آباد کرنا چاہتا ہے،کیا مالک اس زمین کو آباد کر سکتا ہے؟ نیز اس قبر کو باقی رکھنے اور ختم کرنے کا کیا حکم ہے؟ تقریبا 80 سال پرانی قبر ہے، اس سے ایک کلومیڑ کے فاصلے پر قبرستان ہے یہ اس جگہ اکیلی قبر ہے۔
واضح رہے کہ اگر زمین کسی کی ذاتی ملکیت ہو اور اس کی اجازت کے بغیر اس میں میت دفن کی گئی ہو تو مالکِ زمین اس میت کو وہاں سے نکال سکتا ہے اور اگر اس کی اجازت سے میت دفن کی گئی ہو، لیکن قبر کے نشانات مٹ چکے ہوں اور اس میں دفن میت مٹی بن چکی ہو تو اس پر گھر بنانا یا کھیتی باڑی کرنا جائز ہے، نیز جب ذاتی مملوکہ زمین میں قبریں پرانی اور بوسیدہ ہوکر مٹ جائیں اور لاشوں کے بارے میں یقین یا ظن غالب ہو کہ وہ مٹی ہوگئے ہیں تو اس زمین پر عمارت بنانا، کھیتی باڑی کرنا، یعنی اپنے استعمال میں لانا شرعا جائز ہے۔
صورت مسئولہ میں جب اس قبر کے بارے میں پرانے ہونے کی وجہ سے صحیح علم بھی کسی کو نہیں، اور اس قبر کو تقریبا80 سال ہو چکے ہیں تو ایسی زمین کو استعمال میں لانا جائز ہے، اوراس پر گھر بنانا بھی جائز ہے، نیز اگر اتنے عرصے بعدقبر میں میت صحیح سلامت موجود ہو اور مالک کی اجازت کے بغیر دفن کی گیا ہو تو اس کو دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے، تاہم اگر مالک قبر کو باقی رکھے تو یہ مرحوم کی تکریم بھی ہے اور مالک کے لئے باعث اجر وثواب بھی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے :
"( ولا يخرج منه ) بعد إهالة التراب ( إلا ) لحق آدمي ك ( أن تكون الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة ) ويخير المالك بين إخراجه ومساواته بالأرض كما جاز زرعه والبناء عليه إذا بلي وصار تراباً."
(کتاب الصلوۃ، ج:2، ص:238، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ويستحب في القتيل والميت دفنه في المكان الذي مات في مقابر أولئك القوم وإن نقل قبل الدفن إلى قدر ميل أو ميلين فلا بأس به، كذا في الخلاصة. وكذا لو مات في غير بلده يستحب تركه، فإن نقل إلى مصر آخر لابأس به، ولاينبغي إخراج الميت من القبر بعد ما دفن إلا إذا كانت الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة، كذا في فتاوى قاضي خان. إذا دفن الميت في أرض غيره بغير إذن مالكها فالمالك بالخيار، إن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فيها، كذا في التجنيس."
(کتاب الصلوۃ، ج:1، ص:167، ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100603
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن