بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مالکِ زمین کا مستاجر سے زمین مزارعت پر لینے کا حکم


سوال

زید نے اپنی زمین عمرو کو دو سال کے لیے کرایہ پر دی،بعد میں زید نے عمرو کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ میں آپ کے ساتھ اس زمین میں بطور کاشتکار مزدوری کروں گا اور حاصل شدہ فصل کا تہائی حصہ میرے لیے ہوگا باقی آپ کا ہوگا ؟مذکورہ معاملہ شرعاًجائز ہے یا نہیں ؟

جواب

صورت مسئولہ میں مالک ِ زمین  زید کا مستأجر عمرو کے ساتھ یہ معاہدہ کرنا(  کہ میں آپ کے ساتھ اس زمین میں بطور کاشت کار مزدوری کروں گا اور حاصل شدہ فصل کا تہائی میرے لیے اور باقی آپ کا ہوگا) اس وقت جائز ہوگا جب  اس معاملہ میں  بیج   مستاجر (عمرو)  کی طرف سے ہو اور اگر بیج مالکِ زمین زید کی طرف سے ہوگا تو یہ معاملہ شرعاً جائز نہیں ہوگا ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولو استأجر أرضا ثم دفعها إليه الآجر مزارعة إن كان البذر من قبل رب الأرض لا يجوز لأن ذلك نقض للإجارة في ظاهر الرواية، وإن كان البذر من قبل المستأجر جاز لأن الآجر في الفصل الأول يصير مستأجرا وفي الفصل الثاني يصير أجيرا. كذا في الظهيرية.المستأجر إذا ‌استأجر ‌صاحب ‌الأرض ليعمل في هذه الأرض بشيء معلوم جاز. كذا في فتاوى قاضي خان۔"

(کتاب الإجارۃ،الباب السابع فی إجارۃ المستأجر،ج:۴،ص:۴۲۶، دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100877

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں