بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مالک اگر بچے ہوئے سامان کو پھینکنے کا کہے تو کیا اس کو بغیر اجازت استعمال کیا جاسکتا ہے؟


سوال

میں ایک کمپنی میں کام کرتا ہوں ،جو کہ کنکریٹ کی کمپنی ہے، اور اس کمپنی سے مال لے کر جب ہم کسی جگہ پر جاتے ہیں، اور وہاں پہ کام ختم ہونے کے بعد کچھ مال بچ جاتا ہے ،جب وہ مال بچ جاتا ہے، تو ہمیں مال خریدنے والے کہتے ہیں کہ: وہ مال جا کر کہیں گرا دو یا ضائع کر دو ۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا وہ مال ہم بیچ کر اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں یا اس کو ضائع کردیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر مالک نے اس چیز کو پھینکنے کا کہا تھا ،تو آپ کے لیے اجازت ہے کہ اس کو اپنے استعمال میں لے آئیں ،شرعا اس میں کوئی قباحت نہیں ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل ‌نفق ‌حماره فألقاه في الطريق فجاء إنسان وسلخه ثم حضر صاحب الحمار فلا سبيل له على أخذ الجلد ولو لم يلق الحمار على الطريق فأخذه رجل من منزل صاحبه وسلخه وأخذ جلده فلصاحبه أن يأخذ الجلد ويرد ما زاد الدباغ فيه. وعنه أيضا في شاة ميتة نبذها أهلها فأخذ رجل صوفها وجلدها ودبغه فذلك له فإن جاء صاحبها بعد ذلك أخذ الجلد ويرد ما زاد الدباغ فيه وجوابه في مسألة الشاة يخالف جوابه في مسألة الحمار فيجوز أن يقاس كل واحدة من المسألتين على الأخرى فيصير في المسألتين روايتان كذا في المحيط.

المبطخة إذا قلعت وبقيت فيها بقية فانتهب الناس ذلك إن كان تركها ليأخذها الناس لا بأس بذلك وهو بمنزلة من حمل زرعه وبقي منه سنابل إن ترك ما يترك عادة ليأخذه الناس فلا بأس بأخذه وكذلك من استأجر أرضا ليزرعها فزرعها ولو رفع الزرع وبقيت فيه بقية مثل ما يترك الناس عادة فسقاها رب الأرض ونبتت بسقيه فهي لرب الأرض كذا في التتارخانية والله أعلم."

(كتاب الكراهية، ج:٥، ص:٣٤٦، ط:دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144503101655

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں