بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مالی خیانت کو مالک کے علم میں لائے بغیر واپس کرنا


سوال

میں ایک کمپنی میں اکاونٹنٹ / کیشئیر کی جاب کرتا تھا،اس کمپنی کا مالک جو شخص تھا ،اس کے علم میں لائے بغیر میں نے غبن کردیا،پیسوں کو اپنے ذاتی استعمال میں لاتا رہا،تین سال دھوکہ دیا،کوئی پوچھنے والا نہیں تھا،اب مجھے صحیح حساب کتاب کا بھی نہیں پتہ کہ کتنی رقم کا غبن کیا تھا،اب میں اس غلطی کو سدھارنا چاہتا ہوں ،مالک کے علم میں لائے بغیر،کیا میں ڈائریکٹ کمپنی کے اکاؤنٹ میں یہ رقم جمع کروادوں ؟کمپنی کامالک  وہی ہے،میں قیامت میں اس سے بری الذمہ ہونا چاہتا ہوں،اور  کیا اس دوران میری پڑھی گئی نمازوں کی قضاء میرے ذمہ ہے؟ 

جواب

 کسی شخص کو اللہ تعالیٰ اپنے سابقہ گناہوں سے توبہ کی توفیق عطا فرمادیں تو یہ سعادت کی بات ہے،صورتِ مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ صدقِ دل سے  اپنے گناہوں  سے توبہ کرے، اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے،  خیانت بالکل  ترک کردے، اور آئندہ کے لیے  اس طرح نہ کرنے کا عزم کرے، اور جو  ناحق مال کمپنی کے مالک کا استعمال کیا ہے ،اس کو جلد از جلد واپس کردے۔

سائل کے لیے بہتر تو یہی ہے کہ کمپنی کے مالک کو اس کا حق بھی لوٹا دے اور معافی تلافی بھی کرلے، لیکن اگر مالک کو بتاکر اس کاحق واپس کرنے میں عار محسوس ہوتی ہو،تو اس بات کی گنجائش ہے کہ کسی اور عنوان(مثلاً ہدیہ وغیرہ) سے واجب الاداء رقم اس کو واپس کردے ،یا اس کے علم میں لائے بغیر اس کے اکاؤنٹ میں جمع کرادے ،اسی طرح اگر متعین غبن شدہ رقم یاد نہیں ،تو غالب گمان جتنی رقم کا ہو،اتنی رقم واپس کرنا لازم ہے ،بلکہ اس سے کچھ زائداحتیاطاً واپس کرنا بہتر ہے ،اس کے ساتھ صاحب حق (کمپنی کے مالک) کے لیے دعاء اور ایصال ثواب بھی کرتار ہے ،ان شاءا للہ امید ہے کہ آخرت میں اس حق سے بری الذمہ ہوجائیں گے۔

نیز خیانت کے  دورانیہ میں پڑھی گئی نمازوں کی قضاء شرعاً سائل پر لازم نہیں ہے ،بلکہ وہ نمازیں ادا ہوگئیں ۔ 

اللہ تعالیٰ نے  قرآن مجید  میں امانت داری کی تاکید فرمائی ہے، ارشاد باری ہے:

"فَلْیُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَه وَلْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّه"(سورۃ بقرۃ،آیت:283)

ترجمہ: ”تو جو امین بنایا گیا ا س کو چاہیے کہ اپنی امانت ادا کرے اورچاہیے کہ اپنے پروردگار اللہ سے ڈرے “۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(ويبرأ بردها ولو بغير علم المالك) في البزازية غصب دراهم إنسان من كيسه ثم ردها فيه بلا علمه برئ وكذا لو سلمه إليه بجهة أخرى كهبة أو إيداع أو شراء وكذا لو أطعمه فأكله."

(كتاب الغصب، ج:6،ص:182، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100989

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں