بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مالی جرمانہ کا حکم


سوال

 تین بچے والی خاتون نے کورٹ کے ذریعہ اپنے شوہر سے چھٹکارا حاصل کر کے ہمارے گاؤں کے ایک آدمی سے شادی کی۔ گاؤں والوں نے ایک کمیٹی تشکیل دے کر مذکورہ جوڑی کے بارے میں فیصلہ کیا جس میں کچھ مالی جرمانہ عائد کیا اور مقامی دار الافتاء کے ہدایت کے مطابق مذکورہ جوڑی کو شرعی نکاح کا مکلف بنایا۔ چنانچہ اس پر عمل ہوا اور شریعت کے مطابق شادی ہوئی۔ اس طرح ایک دو اور واقعے پیش آئے  جس میں بھی گاؤں کی کمیٹی نے مالی جرمانہ عائد کیا تھا چنانچہ اب کمیٹی کے پاس مالی جرمانہ کے تقریباً تین لاکھ روپے جمع ہے۔

١: کیا اس طرح کے معاملات میں مالی جرمانہ عائد کرنا جائز ہے؟ مفتی محمد خالد سیف اللہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی تصنیف جدید فقہی مسائل کے جلد ٣ کے صفحے ٢٤٤ سے ٢٤٩ تک کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مالی جرمانہ عائد کرنا جائز ہے۔ براہ کرم مفتی بہ کی قول کی طرف راہنمائی فرمائیں اگر مالی جرمانہ نا جائز ہے تو سد باب کے لیے متبادل ذرائع کی طرف رہنمائی فرمائیں!

٢: اگر مالی جرمانہ وصول کر لیا گیا تو اس کو کہاں  خرچ کرنا چاہیے؟

٣: گاؤں کے نوجوان لڑکے اس مالی جرمانہ کے رقم سے کھیل کے لیے زمین (کھیل گاہ) خریدنا چاہتے ہیں، کیا کمیٹی ان پیسوں کو کھیل کی زمین خریدنے میں خرچ کر سکتی ہے؟

٤: مبتلا بہ اشخاص کو شرعی نکاح کا انتظام کرنے میں کچھ پیسے خرچ ہوئے تھے جیسے کہ شرعی حکم حاصل کرنے کے لئے مفتی صاحب کے پاس پہنچنے کا کرایہ و غیرہ یا پہلے شوہر بلا عوض طلاق نہ دینے کی وجہ سے ان کو کچھ رقم دی گئی تا کہ طلاق دے دے تو کیا اس شخص (مبتلا بہ)سے لی گئی مالی جرمانہ کی رقم میں سے ان اخراجات کو پورا کیا جا سکتا ہے؟

٥: میٹنگ کے دوران ارکان مجلس کے لیے چاۓ بسکٹ کا انتظام مالی جرمانہ کے رقم سے کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ    مالی جر مانا لینا جائز نہیں ہے ،لہذا صورت مسئولہ  میں مالی جرمانہ کی مد میں اب تک جن لوگوں سے  جتنی رقم لی ہے تو اس کا حکم یہ  ہے کہ جتنی رقم جس  سے  لی ہے اس  کے مالک  کو واپس کرنا ضرور ی ہے  ، اس رقم کو  کسی پر خرچ کرنا یا اس سے کھیل کا میدان خرید نا یا اپنے استعمال میں لانا ، یا  کسی بھی مجلس کے  خرچے پر اس رقم کو خرچ کرنا جائز نہیں ہے ، اسی طرح  نکاح کی مجلس  کا انتظام کر نے میں جو رقم خرچ ہو ئی  تو بطور تبر ع کے ہوگی  اور یہ رقم جرمانے کی رقم سے لینا جائز نہیں ہے ۔

باقی زیر نظر مسئلہ میں یہ سوال کہ مذکورہ عورت  نے عدالت کے ذریعے اپنے  شوہر سے چھٹکا را حاصل کر کے کسی دوسرے شخص سے شادی کی تو  اس میں واضح نہیں ہے کہ دوسری شادی سے قبل اپنے پہلے شوہر  کی رضامندی سے عدالتی خلع کی ڈگری حاصل کی تھی یا اس کی رضامندی  کے بغیریکطرفہ تھی؟ اور اس سے شرعاً نکاح ختم ہوا یا نہیں؟اور مذکورہ دوسرے شخص کے ساتھ نکاح درست ہوا یا نہیں؟ اس کے بارے میں شرعی رہنمائی کے لیے فیصلے کی دستاویزات کے لیے جائزہ لینا ضروری ہے۔

اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے :

"وَمَن لَّمۡ يَحۡكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡفَٰسِقُونَ"(المائدۃ:47)

حدیث شریف میں ہے:

"أخبرنا أبو بكر بن الحارث الفقيه، أنبأ أبو محمد بن حيان، ثنا حسن بن هارون بن سليمان، ثنا عبد الأعلى بن حماد، ثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لايحلّ مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه ".

( السنن الكبرىللبيهقي، باب من غصب لوحا فأدخله في سفينة أو بنى عليه جدارًا،166/6،  دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأفاد في البزازية: أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدةً؛ لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي ... وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ."

( کتاب الحدود، باب التعزیر،61/4، ایچ، ایم، سعید)

البحر الرائق میں ہے :

"وفي شرح الآثار ‌التعزير ‌بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ.  والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال، وأما التعزير بالشتم فلم أره إلا في المجتبى قال وفي شرح أبي اليسر التعزير بالشتم مشروع ولكن بعد أن لا يكون قاذفا ،  وصرح السرخسي بأنه ليس في التعزير شيء مقدر بل هو مفوض إلى رأي القاضي لأن المقصود منه الزجر وأحوال الناس مختلفة فيه".

(کتاب الحدود، فصل فی التعزیز،44/5،دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144503100491

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں