بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دیر سے آنے والے طلباء سے جرمانہ لینے کا حکم


سوال

مىرا سوال یہ  ہے که مىں اىک پرائیوىٹ سکول ٹىچر ہوں اور طلباء روزانہ کی بنىاد پر لىٹ سکول آتے ہىں ہم نے  طلبا کو سمجھاىا لىکن  وہ اس کےباوجود  دىر سے سکول آتے ہىں ہم نے  ان پر  جرمانہ فىس لگایا ہے۔ دلائل کی روشنی میں جواب   دىں کہ جرمانہ لگانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں اسکول انتظامیہ کا دیر سے آنے والےبچوں پر مالی جرمانہ لگانا جائز نہیں ہے۔ اسکول انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ طلباء کی بروقت  حاضری کو یقینی بنانے کے لیے جرمانہ فیس کے بجائے کوئی   اور  جائز اور مناسب سزا تجویز کریں۔ مثلاً دیر سے آنے والے طلباء کی سرزنش کرنا، یا ان کے والدین/سرپرست کو بلا کر انہیں بروقت طالب علم کے آنے کی تاکید کرنا وغیرہ ۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي...... وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ. ....... والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."

(کتاب الحدود، باب التعزیر، مطلب فی التعزیر بأخذ المال،ج 4، صفحہ: 60 و61، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102033

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں