بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 ذو القعدة 1445ھ 22 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر حاضر طلبہ جرمانہ لینے اور اس کے استعمال کا حکم


سوال

جو طالب علم بغیر اجازت چھٹی کرے، اس سے  پیسے لینا جائز ہے ؟اور اگر وہ پیسے ان کے پروگرام کے لیے  استعمال ہو جائیں اور ان پر ہی لگایا جائے تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  غیر حاضر طلبہ  سے   جرمانہ وصول کرنا  جائز نہیں ہے، جن سے جرمانے کی رقم وصول کی گئی ہے ان ہی کو مذکورہ رقم واپس کرنا لازم ہے۔ اگر کسی ادارے میں مالی جرمانہ وصول کرنے کا معمول ہو تو اسے فوراً ختم کردینا چاہیے۔ اور  ایسی جائز صورت اختیار کی جائے جس سے بچے پابندی سے حاضری دیں۔نیز مذکورہ رقم کو طلباء کے اجازت کے بغیر ان ہی کے کسی پروگرام وغیرہ میں خرچ کر بھی جائز نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ألا تظلموا ألا لايحلّ مال امرئ إلا بطيب نفس منه". رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

(مشکاۃ المصابیح، باب الغصب و العارية، الفصل الثانی، ج: 2، صفحہ: 156، رقم الحدیث: 2946، ط:  المكتب الإسلامي - بيروت)

حدیث شریف میں ہے:

"أخبرنا أبو بكر بن الحارث الفقيه، أنبأ أبو محمد بن حيان، ثنا حسن بن هارون بن سليمان، ثنا عبد الأعلى بن حماد، ثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لايحلّ مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه ".

( السنن الكبرىللبيهقي، باب من غصب لوحًا فأدخله في سفينة أو بنى عليه جدارًا، ج: 6، صفحہ: 166، رقم الحدیث: 11545، ط:  دار الكتب العلمية، بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"و أفاد في البزازية: أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدةً؛ لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لايجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي ... و في شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ."

( کتاب الحدود، باب التعزیر، ج: 4، صفحہ: 61، ط: ایچ، ایم، سعید)

البحرالرائق میں ہے:

" و في شرح الآثار: التعزیر بأخذ المال کانت في ابتداء الإسلام ثم نسخ."

(البحر الرائق، باب التعزیر41/5 )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100161

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں