زیرو فنڈ اکثر سرکاری اسکولوں میں بچوں سے غیرحاضری پر مالی جرمانہ اور اس کے ساتھ زائد رقم وصول کی جاتی ہے اور سالانہ داخلہ میں اضافی رقم وصول کی جاتی ہے جو جمع ہو جاتی ہے اسے زیرو فنڈ کا نام دیا جاتا ہے اس فنڈ کو ہیڈ ماسٹر اپنے اختیار کے مطابق اسکول میں خرچ کرتا ہے حالانکہ حکومت ہرسال اسکول کی ضروریات کے لیے فنڈز فراہم کرتا ہے۔ کیا اسلام میں ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟
غیر حاضر طلبہ سے جرمانہ وصول کرنا جائز نہیں ہے، جن سے جرمانے کی رقم وصول کی گئی ہے ان ہی کو مذکورہ رقم واپس کرنا لازم ہے۔ اگر کسی ادارے میں مالی جرمانہ وصول کرنے کا معمول ہو تو اسے فوراً ختم کردینا چاہیے. جو چیز شرعاً جائز نہ ہو، اس سے حاصل شدہ آمدن میں کبھی برکت نہیں ہوسکتی۔ اس کے بجائے کوئی ایسی جائز صورت اختیار کی جائے جس سے بچے پابندی سے حاضری دیں، اسی طرح سالانہ داخلہ فیس میں بھی اضافی رقم لینا درست نہیں۔
اگر لاعلمی یا دینی ماحول نہ ہونے کی وجہ سے کسی ادارے میں جرمانے کی رقم جمع ہوگئی ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کے مالکان معلوم ومتعین ہوں تو انہیں واپس کردی جائے، پھر وہ جہاں چاہیں صرف کردیں، ان پر کسی قسم کا اخلاقی دباؤ یا جبر نہ ہو، پھر اگر رقم کا مالک بالغ طالبِ علم ہو یا نابالغ طالبِ علم کا سرپرست ہو اور وہ خوشی سے یہ رقم ادارے کے اخراجات میں دے دے تو اس کے استعمال کی اجازت ہوگی۔
اور اگر کسی طریقے سے بھی اصل حق دار معلوم نہ ہو تو یہ رقم اسکول میں لگانےکے بجائے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا ضروری ہوگا۔
."ولایکون التعزیر بأخذ المال من الجاني في المذهب". (مجمع الأنهر، کتاب الحدود / باب التعزیر ۱؍۶۰۹ بیروت)
."وفي شرح الآثار: التعزیر بأخذ المال کانت في ابتداء الإسلام ثم نسخ". (البحر الرائق /باب التعزیر41/5 )
."والحاصل أن المذهب عدم التعزیر بأخذ المال". (شامي، باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال،ج: ۴، ص: ۶۱)
."لایجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي". (شامي، باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال،ج: ۴، ص: ۶۱)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307101985
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن