بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مالی جرمانہ ادا کرنے کا حکم


سوال

شادی کے وقت اسٹامپ پیپر میں لکھا گیا تھا کہ اگرلڑکا اپنی بیوی کو طلاق دے گا تو دس لاکھ روپے بطورِ جرمانہ ادا کرے گا اور اگر لڑکی خلع کرے گی تو دس لاکھ روپے بطورِ جرمانہ ادا کرے گی۔اور اسٹامپ  پیپر میں لڑکا،لڑکی ، دونوں کے والدین اور گواہان کے دستخط موجود ہیں اور یہی شرائط نکاح نامے میں بھی موجود ہیں۔ اسی صورت میں لڑکے نے لڑکی کو تحریری طلاق نامہ بھجوا کر طلاق دے دی اور لڑکے نے دوسری شادی کرلی ہے اور اب دس لاکھ بطور جرمانہ ادا کرنے سے انکاری ہے۔

اس صورت میں آپ ہمیں فتویٰ جاری کریں؛ کیوں کہ لڑکے نے فتویٰ کروایا ہے کہ دس لاکھ روپے بطورِ جرمانہ ادا کرنا خلافِ شریعت ہے۔ آپ کے  جواب کی منتظر؛ کیوں کہ دودن بعد میری عدالت میں پیشی ہے!

جواب

ملحوظ رہے کسی کو بھی سزا کے طور پر مالی جرمانہ کرنا  از رُوئے شرع جائز نہیں ہے، لہذا نکاح نامے  میں لڑکے کے طلاق دینے کی صورت میں دس لاکھ روپیہ جرمانہ کی جو سزا مقرر کی گئی تھی وہ جرمانہ خلافِ شرع ہے جس کی ادائیگی لڑکے کے ذمے  لازم نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لايجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي ... والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."

(كتاب الحدود، باب التعزير، مطلب فى التعزير باخذالمال، ج:4، ص:62، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144207200994

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں