بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مالی جرمانہ کا حکم


سوال

کیا طلبہ کو مالی طور پرجرمانہ کرناجائز ہے یا نہیں؟اگرجائز ہے تو اس کامصرف کیاہے؟اوراگر جائز نہیں توایسی صورت میں ماتحت کو جرمانہ لینے کا حکم دینے کی صورت میں ماتحت جرمانہ لے سکتا ہے یا نہیں ؟اگر ماتحت جرمانہ لے لے تو گناہ گار ہوگا یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں کسی پرمالی جرمانہ عائد کرنا یاکسی سےوصول کرناجائزنہیں ہے،البتہ اگرتنبیہ کے واسطے رقم لے لی جائے اورکچھ عرصہ بعد واپس کی جائے تواس کی اجازت ہے۔

1۔ صورتِ مسئولہ میں طلبہ سے مالی جرمانہ لےکر کسی بھی مصرف میں خرچ کرناجائز نہیں ہے،البتہ اگر تنبیہ کے لیے ان سے رقم لے کر کچھ عرصہ بعد ان کو واپس کردی جائے تو اس کی اجازت ہے۔

2۔ ماتحت کا منتظم کے حکم پر طلبہ سےمالی جرمانہ وصول کرنا  جائز نہیں ہے؛کیوں کہ یہ" تعاون على الاثم" کے زمرے میں آتا ہے اور وصول کرنے والے بھی گناہ گار ہوں گے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِهَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ "(البقرۃ:188)

ارشادِباری تعالیٰ ہے:

 "وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۠وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ"(المائدۃ:2)

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

"و عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا تظلموا ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه. رواه البيهقي في شعب الإيمان و الدارقطني في المجتبى."

(کتاب البیوع،باب الغصب والعاریة،الفصل الثانی،ج1،ص261،رحمانیه)

الدر مع الرد میں ہے:

"مطلب في التعزير بأخذ المال

(قوله:لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج،وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان.

(قوله: وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.

وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ .اه.

والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."

(کتاب الحدود،باب التعزیر،مطلب فی التعزیر باخذالمال ،4/61،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100680

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں