بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مالی بدحالی کی وجہ سے گھر تبدیل کرنا


سوال

کیا گھر کو تبدیل کرنے سے کاروبار میں فرق پڑتا ہے ؟کسی سے سنا ہے جس شخص کے مالی حالات خراب ہو ں تو اس کو چاہے وہ اپنا گھر تبدیل کردے ،کیا ایسی کوئی بات حدیث سے ثابت ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں گھرتبدیل کرنے سے کاروبارمیں کوئی فرق نہیں پڑتا،اورنہ ہی کسی حدیث سے یہ بات ثابت ہے ،زرق میں فراخی دینے والابھی اللہ تعالی ہے اوررزق تنگ کرنے والابھی اللہ تعالی ہے،البتہ رزق میں تنگی اوربے برکتی انسان کے گناہ اوربداعمال کی وجہ سے بھی ہوتی ہے،لیکن جب انسان بداعمالی چھوڑدیتاہے،اورتمام گناہوں سے توبہ تائب ہوجاتاہے تواللہ تعالی اس کی روزی ،کاروبارمیں فراخی اورترقی عطافرماتے ہیں ،لہذاجس نے یہ کہاہےکہ گھرتبدیل سے مالی حالات اچھی ہوتی ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہےجیساکہ حدیث شریف میں ہے:"عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " لا عدوى ولا طيرة ، ولا هامة ولا صفر."

(صحيح البخاري،كتاب الطب،باب لاهامة،ج:4،ص:2590،ط:بشرى)

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ سےروایت ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاامراض میں تعدیہ کچھ نہیں اوربدشگونی اورہامہ اورصفرکی کوئی اصل یہ سب لغواوروہم ہے۔

(نصرالباری ،كتاب الطب ،باب لاهامة،ج:10،ص:605،ط:مکتبۃ الشیخ)

تشریح :یہ خیال کہ ایک شخص کی بیماری دوسرے کو لگ جاتی ہے، زمانہ جاہلیت کی یادگار ہے، چناچہ اہل عرب کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص بیمار کے پہلو میں بیٹھ جائے یا اس کے ساتھ کھائے پئے تو وہ بیماری اس میں بھی سرایت کر جائے گی، علماء لکھتے ہیں کہ عام طور پر اطباء کے نزدیک سات بیماریاں ایسی ہیں جو ایک دوسرے کو لگتی ہیں (١) جذام (٢) خارش (٣) چیچک (٤) آبلے جو بدن پر پڑجاتے ہیں (٥) گندہ دہنی (٧) وبائی امراض۔  لہذا شارع (علیہ السلام) نے اس اعتقاد خیال کو رد کرتے ہوئے واضح کیا کہ مرض کا ایک سے دوسرے میں سرایت کرنا اور اڑ کر لگنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا بلکہ اس کا تعلق نظام قدرت اور قادر مطلق کی مشیت سے ہے کہ جس طرح پہلا شخص بیمار ہوا ہے اسی طرح دوسرا شخص بھی اس بیماری میں مبتلا ہوسکتا ہے،اور بدشگونی بےحقیقت ہے  کا مطلب یہ ہے کہ حصول منفعت یا دفع مضرت میں بدفالی لینے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور نہ شریعت نے اس کو سبب اعتبار قرار دیا ہے، لہٰذا اس کا کوئی اعتقاد و اعتبار نہ کرنا چاہئے، چونکہ ہوگا وہی جو قادر مطلق (اللہ تعالیٰ ) کی مرضی ہوگی اس لئے بد فالی لے کر اپنے آپ کو خواہ مخواہ خوف و اندیشہ اور نامیدی میں کیوں مبتلا کیا جائے۔

(مظاہرحق،كتاب الطب،باب الفأل والطيرة،الفصل الأول،بدشگونی لینامنع ہے،ج:4،ص:277-278،ط:دارالاشاعت)

البتہ عموماًلوگ گھر،گھوڑے اوربیوی کوبعض حالات کی وجہ سے منحوس اوربے برکت سمجھتے ہیں ،جیساکہ حدیث شریف اس کی بھی تردیدکردی کہ نحوست اوربےبرکتی کسی چیزمیں نہیں ہے،اگربالفرض کسی چیزمیں نحوست ہوتی توگھر،گھوڑا،اوربیوی میں ہوتی ،گھرکی نحوست اس کاتنگ اوربری پڑوسی  کا ہوناہے،اورگھوڑے کی نحوست اس پرجہاد نہ کرناہے،اوربیوی میں نحوست اس کابے اولادہوناہے،لہذاجب ان تین چیزوں میں نحوست نہیں ہے توان کے علاوہ کسی چیزمیں نہیں ہوگی،چنانچہ حدیث شریف میں ہے:" وعن ابن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الشؤم في المرأة والدار والفرس - متفق عليه- ورواية الشؤم في ثلاثة في المرأة والمسكن والدابة. "ترجمہ:اور حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا "عورت، گھر اور گھوڑے میں نحوست ہوتی ہے"اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے عورتوں میں ،مکان میں ،اورجانور میں۔ (بخاری ومسلم)

تشریح : ”شوم ضد ہے یمن کی جس کے معنی ہیں ” بے برکتی“ اور اسی کو نحوست بھی کہتے ہیں ،لہذا حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہےکہ ان تین چیزوں میں نحوست ہوتی ہے توتفصیل کے ساتھ سمجھ لیجئے کہ ” نحوست "سے کیا مراد ہے؟

بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ”گھر کی نحوست سے گھر کی تنگی اور بری ہمسائیگی مراد ہے، یعنی جو گھر تنگ و تاریک ہو اور اس کا پڑوس برا ہو تو وہ گھر تکلیف و پریشانی کا باعث ہو جاتا ہے، ” عورت کی نحوست سے مہر کی زیادتی ، اس کی بد مزاج و زبان درازی اور بانجھ پن مراد ہے یعنی جس عورت کا مہر زیادہ مقرر کیا گیا ہو، وہ بد مزاجی و تند خو، زبان دراز ہو اور یہ کہ بانجھ ہو تو ایسی عورت راحت و سکون کی بجائے اذیت و کوفت کا ذریعہ بن جاتی ہے ،اسی طرح گھوڑے کی نحوست سے اس کا شوخ ہونا، مٹھا قدم ہونا(کاہل،سست رو)، اور اس پر سوار ہو کر جہاد نہ کیا جانا مراد ہے،یعنی جو گھوڑا ایسا ہو کہ اپنی شوخی کی وجہ سے پریشان کرتا ہو، سست رفتار ہو اور مٹھا(کاہل )ہو اور اس پر سوار ہو کر جہاد کرنے کی بھی نوبت نہ آئی ہو تو وہ گھوڑا اپنے مالک کے لیے کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔

کچھ علماء یہ کہتے ہیں کہ ان تین چیزوں میں نحوست کے اظہار کرنے کا مقصد دراصل یہ بتانا ہے کہ اگر بالفرض کسی چیز میں نحوست کا ہونا اپنی کوئی حقیقت رکھتا تو ان تین چیزوں میں نحوست ہوتی ، گویا اس تشریح سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ کسی چیز میں نحوست کا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ،چنانچہ یہ کہنا کہ فلاں چیز منحوس ہے یافلاں چیز میں نحوست ہے صرف ایک واہمہ کے درجہ کی چیز ہے ،جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ؛کیوں کہ اگر واقعہ نحوست کسی چیز میں ہوا کرتی تو ان تین چیزوں میں ضرور ہوتی ؛کیوں کہ یہ تین چیزیں نحوست کے قابل ہوسکتی تھیں، چناں چہ یہ ارشاد ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے کہ "اگر کوئی چیز تقد یر کے دائرہ سے باہر ہوتی تو وہ بدنظری تھی" یعنی کائنات کی ہر جنبش و حرکت یہاں کا ذرہ ذرہ پابند تقد یر ہے، اس عالم میں صرف وہی ظہور میں آتا ہے جو پہلے سے مقدر ہو چکا ہو کوئی چیز تقدیر سے باہر نہیں ہے ،اور اگر بفرض محال کوئی چیز مُقَدَّرات کے دائرہ سے باہر ہوتی تو وہ نظربد ہے (کہ جسے عام طور پر نظر لگنا کہتے ہیں) ،لہذا جس طرح اس ارشاد کا مقصد یہ ظاہر کرنا نہیں ہے کہ نظربد تقدیر کے دائرہ سے باہر ہے اسی طرح مذکورہ بالا تینوں چیزوں کے ساتھ نحوست کا ذکر کرنے کا یہ مقصد نہیں ہے  کہ ان تین چیزوں میں نحوست ہوتی ہے۔

اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کے ذریعہ دراصل امت کے لوگوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اگر کسی کے پاس ایسا مکان ہو جس میں رہناوہ ناپسند کرتا ہو، یاکسی کی ایسی بیوی ہو جس کے ساتھ صحبت و مباشرت اسے ناگوار ہو، یا کسی کے پاس ایسا گھوڑا ہو جو اسے اچھا معلوم نہ ہوتا ہو تو ان صورتوں میں یہ چیزیں چھوڑ دینی چاہئیں، یعنی مکان والا اس مکان سے منتقل ہو جائے بیوی والا اس کو طلاق دیدے اور گھوڑے والا اس گھوڑے کو بیچ ڈالے۔

حدیث کی ان توضیحات کی روشنی میں یہ بات صاف ہوگئی کہ یہ ارشاد گرامی" الطیرة منهى عنها" (بدشگونی لینے کی ممانعت) کے منافی نہیں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ عام طور پر لوگ جو یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ مکان منحوس ہے یا فلاں عورت یا فلاں گھوڑا سبزقدم(باعث نحوست،منحوس) ہے، تویہ بات یہاں مراد نہیں ہے۔

(مظاہرحق ،کتاب النکاح،الفصل الاول،ج:3،ص:246-247،ط:دارالاشاعت کراچی)

ارشادباری تعالیٰ ہے:

"وَیَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ یَزِیْدُهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖؕ وَ الْكٰفِرُوْنَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ(26) وَ لَوْ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرٌۢ بَصِیْرٌ(27)"

ترجمہ:اور ان لوگوں کی عبادت قبول کرتا ہے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ (ثواب) دیتا ہے اور جو لوگ کفر کر رہے ہیں انکے لیے سخت عذاب ہے،اور اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے سب بندوں کے لیے روزی فراخ کردیتاتو وہ دنیا میں شرارت کرنے لگتے  لیکن جتنا رزق چاہتا ہے انداز (مناسب) سے (ہر ایک کے لیے) اتارتا ہے۔ وہ اپنے بندوں (کے مصالح) کو جاننے والا (اور ان کا حال) دیکھنے والا ہے۔

(تفسیربیان القرآن ،ج؛3،ص:351،ط:رحمانیہ)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود قال: حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو الصادق المصدوق: «إن أحدكم يجمع خلقه في بطن أمه أربعين يوما ثم يكون في ذلك علقة مثل ذلك ثم يكون في ذلك مضغة مثل ذلك ثم يرسل الملك فينفخ فيه الروح ويؤمر بأربع كلمات ‌بكتب ‌رزقه وأجله وعمله وشقي أو سعيد فوالذي لا إله غيره إن أحدكم ليعمل بعمل أهل الجنة حتى ما يكون بينه وبينها إلا ذراع فيسبق عليه الكتاب فيعمل بعمل أهل النار فيدخلها وإن أحدكم ليعمل بعمل أهل النار حتى ما يكون بينه وبينها إلا ذراع فيسبق عليه الكتاب فيعمل بعمل أهل الجنة فيدخلها."

(كتاب الإيمان،باب الإيمان بالقدر،الفصل الأول،ج:1،ص:82،ط:المكتب الإسلامي بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101891

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں