بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مالی جرمانے کاحکم


سوال

 ہماری یونیورسٹیوں کے ایک استاد نے یہ اصول بنایا ہے کہ ان کے دورانیہ( یعنی گھنٹے) میں  اگرکوئی (استاد سمیت)  موبائل کا استعمال کرے یا موبائل فون سائلنٹ (silent) نہ ہونے کی وجہ سے بجے تو وہ تمام موجود (حاضر) طلبہ کو 30 روپے فی کس کے حساب سے کچھ کھلائے گا ۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ:

1۔ اس قسم کی سزا صحیح ہے یا نہیں ؟

2۔اگر کسی طالب علم پر یہ سزا عائدہوئی ہے تو باقی طلبہ کو اس چیز کا کھانا یااستعمال کرنا صحیح ہے؟

3۔ اگر اس چیز کا استعمال صحیح نہیں اور کسی نے لا علمی کی وجہ سے کھا لیا تو اب تلافی کی کیا صورت ہے؟

جواب

1۔صورت مسئولہ میں موبائل استعمال کرنے  یابجنے کی وجہ سے مالی جرمانہ لگانا جائز نہیں۔

2۔مالی جرمانے میں لی گئی رقم سے خریدی گئی چیز کو کھانا یااستعمال کرنادرست نہیں ہے۔

3۔اگرکسی نے لاعلمی میں اس جرمانے کی رقم سے کوئی چیز کھائی تو اگر یہ علم ہو کہ یہ فلاں کے پیسے سے کھایا گیا ہے توپھر  یہ رقم  اس بندے کوواپس کرناضروری ہے اور گر یہ معلوم نہ ہوسکے تو اس کے مالک کی طرف سے  اتنی رقم صدقہ کردے۔

مجمع الأنہر میں ہے:

"ولایکون التعزیر بأخذ المال من الجاني في المذهب".

(مجمع الأنهر ، کتاب الحدود، باب التعزیر 690/1، بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أن المذهب عدم التعزیر بأخذ المال". 

 (کتاب الحدود،باب التعزیر، مطلب فی التعزیر بأخذ المال4/61،)

فتاوی شامی میں ہے:

''و الحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، و إلا فإن علم عين الحرام فلا يحل له، وتصدق به بنية صاحبه''.

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب فيمن ورث مالاً حراماً، 5 /55، ط: سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144409100268

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں