بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مالکِ زمین کی اجازت کے بغیر اس کی زمین کو قبرستان بنانا جائز نہیں


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا ایک سیاسی حریف ہے، وہ عوام میں میری ساکھ کو زک پہنچانے کی خاطر اور سیاسی انتقام کے طور پر میری زمین پر سیکشن فور لگا چکا ہے، میری رضامندی کے بغیر میری مملوکہ زمین  کو قبرستان بنانا چاہ رہا ہے، اس حکم نامے کے خلاف میں نے عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے،  آپ حضرات سے اس سوال کا جواب مطلوب ہے کہ آیا مذکورہ شخص کا تعلقات اور اختیارات استعمال کرکے میری زمین کو جبرا بحق سرکار لینا از روئے شریعت جائز ہے یا ناجائز؟  

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کا بیان حقیقت پر مبنی ہے کہ مذکورہ زمین سائل کی ذاتی مملوکہ زمین ہے، اس میں کسی اور کا کوئی حق نہیں ہے  اور سائل کے پاس مذکورہ زمین کی ملکیت پرگواہ یا مستند دستاویزات بھی موجود ہیں ، تو ایسی صورت میں مذکورہ شخص کا سائل کی زمین کو اس کی رضامندی کے بغیر اپنے اختیارات اور تعلقات کی بنیاد پر  قبرستان بنانا از روئے شرع ناجائز وحرام ہے اور آخرت میں  مؤاخذہ کا باعث ہے، لہٰذا مذکورہ شخص پر لازم ہے کہ  سیاسی انتقام کےلیے اپنی آخرت کو خراب نہ کرے  اور کسی کی مملوکہ زمین میں اس کی رضامندی کے بغیر جبراً تصرف نہ کرے،  بصورتِ دیگر قیامت کے دن جواب دینا پڑے گا، جہاں نہ کوئی عہدہ کام آئے گا  اور نہ  کسی  کی طاقت چلے گی۔

قرآن مجید میں ہے:

"{وَلَا تَأْكُلُوْا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِوَتُدْلُوْا بِهَآ إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوْا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ }" [البقرة: ١٨٨]

وقَالَ تعالیٰ:  "{وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ}" [إبراهيم: ٤٢]

السنن الکبری للبیہقی میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من أخذ ‌شبرًا من الأرض بغير حقه طوقه من سبع أرضين".

(کتاب الغصب ،باب التشدید فی غصب الارض، جِ:6، ص:163، رقم:11536، ط:دار الکتب)

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

"(المادة ٩٦) : لايجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه.(المادة ٩٧) : لايجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي".

(المقالة الثانية فی بیان القواعد الکلیة الفقهية، ص:27، ط:نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب)

بدائع الصنائع میں ہے۔

"وأما ‌حكم ‌الغصب فله في الأصل حكمان: أحدهما: يرجع إلى الآخرة، والثاني: يرجع إلى الدنيا.أما الذي يرجع إلى الآخرة فهو الإثم واستحقاق المؤاخذة إذا فعله عن علم؛ لأنه معصية، وارتكاب المعصية على سبيل التعمد سبب لاستحقاق المؤاخذة، ...(وأما) الذي يرجع إلى الدنيا، فأنواع: ...(أما) الذي يرجع إلى حال قيامه فهو وجوب رد المغصوب على الغاصب، ... أما السبب فهو أخذ مال الغير بغير إذنه لقوله عليه الصلاة و السلام: «على اليد ما أخذت حتى ترد»، و قوله عليه الصلاة والسلام: «لايأخذ أحدكم مال صاحبه لاعبًا و لا جادًّا، فإذا أخذ أحدكم عصا صاحبه فليرد عليه".

(کتاب الغصب، فصل حکم الغصب، ج،6، ص148، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100350

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں