بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مالِ تجارت میں قیمتِ فروخت پر زکاۃ ہے


سوال

 میں ٹوپی کا کام کرتا ہوں، میں نے ٹوپی کے لیے مال خریدا 65000 روپے کا اور اس کو تیار کیا، اب اس کی قیمتِ فروخت 95000 روپے ہوئے۔

نوٹ: لیکن وہ ابھی  تک فروخت نہیں ہوا اور میرے پاس نقدی کیش بھی ہیں۔ اور لوگوں کو قرض دیا ہوا  مال بھی ہے، اب ان سب مال کی زکوۃ کا  کیسے حساب کروں ؟

جواب

تجارتی مال سے زکاۃ نکالتے وقت قیمتِ فروخت (نفع شامل کرکے) کا اعتبار ہوتا ہے، قیمتِ خرید کا نہیں، لہذا سال پورا ہونے پر جب آپ زکاۃ نکالیں گے اس وقت اس شہر کے بازار میں اس چیز کی جو قیمتِ فروخت ہو، اس کے اعتبار سے حساب کرکے زکاۃ نکالیں گے،  قیمتِ خرید سے نہیں؛ لہٰذا بصورتِ مسئولہ اگر زکاۃ کا سال پورا ہونے کے وقت ان ٹوپیوں کی قیمت پچانوے ہزار روپے بن رہی ہے تو آپ ان ٹوپیوں کے زکوۃ کے حساب میں قیمتِ فروخت   پچانوے ہزار (95000) شمار کریں گے  اور جو مال لوگو ں کو قرض دیا ہے اس کی جو رقم آنی ہے اور جو آپ کے پاس نقدی کیش یا اور کوئی تجارتی سامان ہے سب کو ملا کر  جو مجموعہ بنے اس کا ڈھائی فی صد زکاۃ کی مد  میں آپ  ادا کریں گے۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار  (2 / 286):
"وتعتبر القيمة يوم الوجوب، و قالا: يوم الأداء. و في السوائم يوم الأداء إجماعًا وهو الأصح، و يقوم في البلد الذي المال فيه، و لو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه، فتح".
  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109200516

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں