ہمارے محلے میں ماہانہ تین ہزارروپے مینٹینس ہرگھرسےجمع کئے جاتے ہیں،ان پیسوں کو چوکیدار کی تنخواہ،پانی کابل، صفائی اور سٹریٹ لائٹ کےاخراجات میں صرف کیا جاتا ہے، ابھی اس میں چند گھر والے ایسے ہیں جو ماہانہ تین ہزارروپےنہیں دیتے ،یعنی دو تین مہینے دیر کرتے ہیں، اب دفتر کی طرف سے یہ اصول بنایا گیا ہے کہ اگر کوئی گھر والا ماہانہ پیسے وقت پر نہیں دیتا، دیر کرتا ہے تو اس پر مثال کے طور پر تین سو روپے جرمانہ عائد کردیا جائےگا جو اگلے مہینے کہ مینٹینس کے ساتھ اداکرے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ تاخیر کے صورت میں آ یا یہ تین سو روپے زیادہ لینا شریعت کے اعتبار سے جائز ہے؟
صورت مسئولہ میں جوگھرانےمینٹینس کی رقم جمع کرانےمیں تاخیرکرتےہیں،انتظامیہ ان کےگھرجاکران سےیہ رقم وصول کرےیایاددہانی کی کوئی اورصورت بنائے، یا ان کو جو سہولت دی جاتی ہے وہ وقتی طور پر روک دیں، یہ تو گنجائش ہے، لیکن مینٹیننس تاخیرسےاداکرنےکی وجہ سے اضافی تین سورروپےجرمانہ کےطورپروصول کرناجائزنہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."
(كتاب الحدود، باب التعزير، ج:4، ص:61، ط:سعيد)
وفيه أيضاً:
"مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح : وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال، وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز، ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف، قال في الشرنبلالية : ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه."
(كتاب الحدود، باب التعزير، ج:4، ص:62، ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102786
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن