بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مال حرام سے خریدی گئی جائیداد کے ترکہ کا حکم


سوال

 ایک شخص  M C B بینک آف پاکستان میں ملازم تھا اور اسی ملازمت کے دوران انہوں نے اسی بینک کی آمدنی سے کچھ زمین خریدی جو اس وقت ایک مناسب قیمت بنتی تھے جب کہ آج اس کی قیمت تقریباً 20 کروڑ بنتی ہے اب یہ زمین اس مالک کے ورثاء کیلئے جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ   مسئولہ میں  بہتر اور تقویٰ  کا تقاضا یہ ہے کہ مذکورہ شخص نے جو مال وجائیداد اپنی بینک کی حرام  کمائی سے حاصل کی ہے،ورثاءوہ تمام زمین فروخت کرکے اس کی قیمت بلا نیت ثواب کسی مستحق/مستحقین  کو صدقہ کردیں،لیکن اگر ورثاء تمام جائیدادقیمت فروخت کے اعتبار سے صدقہ نہیں کرسکتے تو  جتنی رقم سےمذکورہ شخص  نے اپنی حیاتی میں  زمین خریدی تھی اس قدر رقم  کو  بلا نیت ثواب صدقہ کرنا لازم ہے اور اس سے زائدحاصل ہونے والی  رقم کے استعمال کی گنجائش ہے؛ لہذااگر ورثاء  موروثہ زمین کی قیمت خرید صدقہ کردیں یا زمین  بیچنے کے بعد تمام ورثاء یا تو اپنی رضامندی سے تقسیم کرنے سے پہلےہی  اتنی رقم صدقہ کر دیں جتنے کی زمین خریدی تھی یا پھر مکمل قیمت آپس میں تقسیم کرنے کے بعد ہر وارث اپنے حصہ میں آنے والی حرام رقم صدقہ کردے،تو زمین یا اس کی بقیہ رقم ورثاء کے لیے حلال ہوگی،لیکن قیمتِ  خرید سے زائد حاصل ہونے والی رقم کے استعمال کی اجازت کے باوجود تقوی اور احتیاط اسی میں ہے کہ اس کو بھی صدقہ  کیا جائے۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین  میں ہے:

«اكتسب حرامًا و اشترى به أو بالدراهم المغصوبة شيئًا، قال الكرخي: إن نقد قبل البيع تصدق بالربح وإلا لا، و هذا قياس، و قال أبو بكر: كلاهما سواء و لايطيب له، و كذا لو اشترى و لم يقل بهذه الدراهم و أعطى من الدراهم دفع ماله مضاربة لرجل جاهل جاز أخذ ربحه ما لم يعلم أنه اكتسب الحرام.

(قوله: اكتسب حرامًا إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالًا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اهـ."

(کتاب البیوع باب المتفرقات ج 5، ص 235،ط؛ایچ ایم سعید)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین  میں ہے:

"«و في حظر الأشباه: الحرمة تتعدد»مع العلم بها إلا في حق الوارث، وقيده في الظهيرية بأن لا يعلم أرباب الأموال، وسنحققه ثمة.

مطلب فيمن ورث مالًا حرامًا

(قوله: إلا في حق الوارث إلخ) أي فإنه إذا علم أن كسب مورثه حرام يحل له، لكن إذا علم المالك بعينه فلا شك في حرمته ووجوب رده عليه، وهذا معنى قوله وقيده في الظهيرية إلخ، وفي منية المفتي: مات رجل و يعلم الوارث أن أباه كان يكسب من حيث لايحل و لكن لايعلم الطلب بعينه ليرد عليه حل له الإرث و الأفضل أن يتورع و يتصدق بنية خصماء أبيه. اهـ و كذا لايحل إذا علم عين الغصب مثلا وإن لم يعلم مالكه."

(کتاب البیوع باب البیع الفاسد ج   5،ص  99،ط؛ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100262

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں