بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مالداری میں کفاءت کا اعتبار


سوال

نکاح کے باب میں کفاءت میں سے  ایک مال داری میں کفو کا ہونا  ہے،چناں چہ اگر شوہر بیوی کے اخراجات پورا کر سکتا ہو اگرچہ سسرال اور اس کی مال داری میں بہت کم اونچ نیچ ہو تو آیا لڑکی کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر درست ہوگا یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں لڑکا اگر لڑکی کے اخراجات اور اس کا  نان ونفقہ (خرچہ وغیرہ) یومیہ یا ماہانہ بنیادوں پر اٹھاسکتا ہواور لڑکی کے مہر معجل کی ادائیگی پر قادر ہوتواس صورت میں  لڑکا لڑکی کا کفو ہے ذراسی اونچ نیچ کفو  کے مانع نہ ہوگی لہذا ایسی صورت میں  عاقلہ بالغہ لڑکی اگر ولی کی اجازت کے بغیر کفو میں نکاح کرے  تو لڑکی کے اولیاءکو نکاح  فسخ کرنے کا اختیار نہیں   اگرچہ ولی  کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنا شرعاً ناپسندیدہ  ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة  بلا) رضا (ولي)، والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه، وما لا فلا".

(کتاب النکاح ، باب الولی،3/ 55، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"(ومالا) بأن يقدر على المعجل ونفقة شهر لو غير محترف، وإلا فإن كان يكتسب كل يوم كفايتها لو تطيق الجماع.

(قوله: ومالا) أي في حق العربي والعجمي كما مر عن البحر لأن التفاخر بالمال أكثر من التفاخر بغيره عادة وخصوصا في زماننا هذا بدائع.

(قوله: بأن يقدر على المعجل إلخ) أي على ما تعارفوا تعجيله من المهر، وإن كان كله حالا فتح فلا تشترط القدرة على الكل، ولا أن يساويها في الغنى في ظاهر الرواية وهو الصحيح زيلعي، ولو صبيا فهو غني بغنى أبيه أو أمه أو جده كما يأتي وشمل ما لو كان عليه دين بقدر المهر، فإنه كفء لأن له أن يقضي أي الدينين شاء كما في الولوالجية وما لو كانت فقيرة بنت فقراء كما صرح به في الواقعات معللا بأن المهر والنفقة عليه فيعتبر هذا الوصف في حقه وما لو كان ذا جاه كالسلطان والعالم قال الزيلعي: وقيل يكون كفؤا وإن لم يملك إلا النفقة لأن الخلل ينجبر به ومن ثم قالوا: الفقيه العجمي كفء للعربي الجاهل (قوله: ونفقة شهر) صححه في التجنيس وصحح في المجتبى الاكتفاء بالقدرة عليها بالكسب فقد اختلف التصحيح واستظهر في البحر الثاني ووفق في النهر بينهما بما ذكره الشارح وقال إنه أشار إليه في الخانية (قوله: لو تطيق الجماع) فلو صغيرة لا تطيقه فهو كفء وإن لم يقدر على النفقة لأنه لا نفقة لها فتح ومثله في الذخيرة".

(كتاب النكاح ، باب الكفاءة ، 3/ 90،ط: سعيد )

بدائع الصنائع  میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول، سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر، غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض". 

(کتاب النکاح، فصل ولایۃ الندب والاستحباب فی النکاح، 2/ 247 ط: رشيدیہ)

امداد الفتاوی میں ہے :

"سوال: بہشتی زیور حصہ چہارم صفحہ 17 میں لکھا ہے کہ جو مہر معجل دے سکے وہ بڑے بڑے دولت مند کا کفو ہے ،کیا صرف مہر معجل پر قدرت کافی ہے یا اس کے ساتھ نان ونفقہ کی قدرت بھی ضروری ہے کتب درسیہ میں نفقہ کی قدرت کو بھی شرط لکھا ہے ۔

جواب :مراد یہ معلوم ہوتی ہے کل مہرپر قدرت شرط نہیں پس مقصود نفی کرنا ہے اشتراط قدرت مہر مؤجل کی نہ کہ نفقہ کی اس لیے تعارض نہیں ہے ، البتہ اگر صحت نامہ میں بعد لفظ مہرمعجل کے لفظ نفقہ بڑھادیاجائے تو زیادہ توضیح ہوجائے ۔"

(کتاب النکاح ،2/ 370 ، ط: دارالعلوم کراچی )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100502

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں