بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مال دار والدہ کے نفقہ کا حکم


سوال

 زید اور بکر دونوں بھائی ہیں اور ان کی والدہ زینب اور بہن فاطمہ غیر شادی شدہ ہیں ۔ ان کو  ترکہ میں بالترتیب 35٪ ایک کروڑ پنتالیس لاکھ تقریبًا  ( دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو)  اور  17.5٪ بہن فاطمہ کو تقریبًا بہتر لاکھ روپے اور والدہ زینب کو  12.5٪ تقریبًا  پچاس  لاکھ روپے حصے میں آئیں ہیں ۔ ( زید ، بکر اور فاطمہ کے والد کے انتقال کے بعد ان کے ترکے کے)۔ اب زید ، فاطمہ اور زینب کراچی میں اکھٹے رہتے ہیں،  جب کہ بکر بیرونِ ملک بسلسلہ ملازمت رہتا ہے۔اور دونوں خواتین بوجہ کبر سنی اور بیماری کے انتہائی نگہداشت کی محتاج ہیں اور اکیلی نہیں رہ سکتیں۔ اس حساب سے کراچی میں موجود وراثت کا حصہ 35 + 17.5 + 12.5 = 65٪ بنا اور بیرون ملک بکر کے پاس اس کا حصہ 35٪ بنا ۔  واضح رہے کہ دونوں بھائی برسر روزگار ہیں اور کسی کے محتاج نہیں اور اپنی بہن اور والدہ کا خرچہ بآسانی اٹھا سکتے ہیں۔ نیز یہ بھی واضح ہو کہ زید عملًا بوجہ والدہ اور بہن کے ساتھ ہونے اور دونوں خواتین کے بیمار ہونے کے ، ان دونوں خواتین کی عملًا خدمت بھی کررہا ہے اور ان دونوں کا ولی بھی ہے ۔اور بکر بوجہ بیرون ملک ہونے کے عملا خدمت نہیں کرسکتا۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

1. بکر کے پاس بیرون ملک ، کراچی کے حصے کے پیسوں میں سے تقریبًا انیس لاکھ رکھے ہیں ، کیا وہ اس کو  اپنے پاس روک سکتا ہے  بوجہ اس کے کہ بہن اور والدہ کے انتقال کے بعد  ان کا وارث بننے  کی وجہ سے یہ رقم  اسی کے حصہ میں آنے والی ہے اور اگر  وہ  یہ عذر بیان کرے کہ میں ماہانہ خرچہ  میں  سے کچھ  مقدار بھیجتا رہوں گا،  اس  لیے  اس مقدار کو  اپنے پاس ہی رکھوں گا۔ اور  زید اس پر راضی نہیں ہے ۔ آیا بکر کو اس کی  اجازت ہے؟

2 ۔ دونوں خواتین کے نفقہ کی تین قسمیں ہیں ۔ الف ۔ معمول کا نفقہ جس میں روزمرہ کی دوا دارو اور کھانا پینا ( شرب و طعام و كسوة و مسکن) ہے۔ ب۔ غیر معمولی حالات جیسے ہسپتال وغیرہ کے بڑے خرچے۔ ج۔ بعد از وفات قضا نماز روزہ کا فدیہ وغیرہ۔(جس کی وصیت کی جاچکی ہے)۔

سوال یہ ہے ترکہ میں اوپر مذکورہ رقم ، دونوں خواتین کے حصہ میں آنے سے پہلے زید اپنے ذاتی مصارف سے نفقہ کی پہلی قسم " الف" کو ادا کررہا تھا ، اب تقسیم ترکہ کے بعد دونوں خواتین کے تینوں قسم کے نفقات ، کیا زید ان خواتین کے اس مال میں سے جو ترکہ میں ان کا بنا ہے جس کا کل میزانیہ تقریبًا  ایک کڑوڑ تئیس  لاکھ  (دونوں خواتین کا مجموعی حصہ) ہے ، لینے کا مجاز ہے یا نہیں ؟

3. بکر کا یہ مطالبہ ہے کہ ان دونوں خواتین کا پہلی قسم کا نفقہ دونوں بھائی مل کر  ادا کریں اور  ب  اور  ج  دونوں خواتین کے ترکہ میں سے لیں؛ کیوں کہ دونوں بھائی غنی ہیں اور نفقہ  کی  پہلی قسم کا تحمل بآسانی کرسکتے ہیں، نیز  اس وجہ سے بھی کہ ان دونوں خواتین کا حصہ محفوظ  رہے گا، اور  بعد از  وفات دونوں بھائیوں میں تقسیم ہوسکے گا ۔ جب کہ  زید تینوں قسم کے نفقہ  کا ، ان دونوں خواتین کے حصہ میں سے لینے کا طالب ہے ، براہ کرم واضح فرمایا جائیے کہ ان دونوں خواتین کے تینوں قسم کے نفقے شرعی طور پر  کہاں سے پورے کیے جانے  چاہیے ؟

4. زید  چوں کہ عملًا  ولی  ہے اور دونوں خواتین بوجہ کبر سنی اور معذوری کے اپنے حصہ کو استعمال نہیں کرسکتی ، تو زید ان کے ترکہ میں کس حد تک تصرف کر سکتا ہے اور کیا کام کرسکتا ہے اور کیا نہیں کرسکتا ؟

5. زید کس حد تک  اس کا پابند ہے کہ وہ ان دونوں خواتین کے نفقہ میں ان دونوں کی مصلحت کے مطابق بکر یا دیگر افراد سے مشورہ کرے ، نیز بکر اس سلسلہ میں کس حد تک زید سے حساب کتاب یا باز پرس کرسکتا ہے  یا اسے روک سکتا ہے؟ واضح رہے کہ بکر باوجود پیشکش کے عملًا ان خواتین کی خدمت پر قادر نہیں  ( یا تیار نہیں)۔

جواب

1) واضح رہے کہ  بکر کا والد کے ترکہ میں سے اپنے حصہ کے علاوہ  ورثاء کی رقم  ورثاء کی اجازت اور رضامندی کے بغیر لینے یاروکنے کا حق نہیں ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"الإرث ‌يثبت بعد موت المورث."

(كتاب الفرائض، يبدأ من تركة الميت بتجهيزه، ج:8، ص:557، ط: دار الکتاب الاسلامی)

2) زید کی والدہ اور بہن کی رضامندی  سے زید اس رقم کو حفاظت کے طور پر اپنے پاس رکھ سکتا ہے، اس صورت میں یہ  رقم زید کے پاس امانت  ہوگی، لہذا ان کی اجازت کے بغیر ان کی ضرورت کے علاوہ اپنے کسی ذاتی استعمال میں لانا زید کے لیے جائز نہیں۔

شرح المجلۃ لسلیم رستم باز میں ہے:

"لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه۔"

(المقدمة،المقالة الثانیة،المادۃ:96،ج:1،ص:51،ط:مکتبه رشیدیه)

3) زید کی والدہ اور بہن کے پاس ترکہ کی صورت میں  اتنا مال ہے کہ وہ اپنے تمام اخراجات اس مال سے  پورے کر سکیں،  تو پھر   ان کے ہر قسم کے نفقہ کو ان کے مال سے  پورا کرنا شرعاً درست ہے، لہذا بکر کا زید کو اس بات پر  مجبور کرناجائز نہیں  کہ روز مرہ کے اخراجات دونوں بھائی مل کر ادا کریں، البتہ بکر  خود اس پر عمل کرے تو اچھی بات ہے۔

ہدایہ میں ہے:

"وعلی الرجل المرسر أن ینفق علی أبویہ وأجدادہ وجداتہ إذا کانوا فقراء وإن خالفوہ فی الدین."

(باب النفقۃ، ج:2، ص:440، ط:سعید)

4) اگر زید کی والدہ اور بہن واقعی اپنے حصے میں خود تصرف نہیں  كرسكتیں تو  زید  ان روز مرہ کے اخراجات  ان کی رقم سے کرسکتا ہے،  مگر ان کی غیر منقولہ جائیداد وغیرہ کو فروخت نہیں کرسکتا ہے۔

5) اگر بکرزید سے بڑا ہے تو زید اس بات کا پابند ہے کہ وہ اس سے مشورہ کرے  اور  بکر اس سے حساب لینے کا بھی اختیار رکھتا ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100876

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں