میں صاحبِ نصاب ہوں اور مدرسے سے ملنے والی تمام تر اِمداد وصول کرتا ہوں، جیسےکھانا ماہانہ وظیفہ وغیرہ ،تو کیا میرے لیے یہ سب درست ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل مدرسے میں مقیم ہے تو صاحب نصاب ہونے کی وجہ سے مدرسے میں زکوٰۃ کی مد سے وظیفہ لینا اور کھانا کھانا جائز نہیں ہے، تاہم اگر مدرسہ میں کھانا نفلی صدقات کی رقم سے بنتا ہو تو سائل کےلیے مدرسے میں کھانا کھانا جائز ہے اوراگر سائل مدرسہ میں مسافر ہے مقیم نہیں ہے،اور سائل کے پاس ضروری اخراجات کے لیے رقم نہیں ہے،اور نہ ہی گھر سے رقم منگوانے کی کوئی صورت ہے،تو مدرسے میں زکوۃ کی مد سے کھانا کھانا اور وظیفہ لینا جائز ہے،لیکن فی زمانہ اپنے گھر / وطن سے رقم وغیرہ منگوانا کوئی مشکل کام نہیں ہے،لہذا سائل کا صاحبِ نصاب ہونے کی وجہ سے زکوۃ کی مد میں کھانا کھانا اور وظیفہ لینا جائز نہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان".
(كتاب الزكوة، باب مصرف الزكوة والعشر،ج :2، ص:347، ط:سعيد)
وفيه أيضا:
"(قوله: لا يملك نصابا) قيد به، لأن الفقر شرط في الأصناف كلها إلا العامل وابن السبيل إذا كان له في وطنه مال بمنزلة الفقير بحر، ونقل ط عن الحموي أنه يشترط أن لا يكون هاشميا".
(كتاب الزكوة، باب مصرف الزكوة والعشر،ج:2، ص:343، ط: سعيد)
وفيه أيضا:
"وبهذا التعليل يقوى ما نسب للواقعات من أن طالب العلم يجوز له أخذ الزكاة ولو غنيا إذا فرغ نفسه لإفادة العلم واستفادته لعجزه عن الكسب والحاجة داعية إلى ما لا بد منه كذا ذكره المصنف ".
وفي الرد:
"(قوله: والحاجة داعية إلخ) الواو للحال. والمعنى أن الإنسان يحتاج إلى أشياء لا غنى عنها فحينئذ إذا لم يجز له قبول للزكاة مع عدم اكتسابه أنفق ما عنده ومكث محتاجا فينقطع عن الإفادة والاستفادة فيضعف الدين لعدم من يتحمله وهذا الفرع مخالف لإطلاقهم الحرمة في الغنى ولم يعتمده أحد ط. قلت: وهو كذلك. والأوجه تقييد بالفقير".
(كتاب الزكوة، باب مصرف الزكوة، ج: 2، ص:340، ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144406100834
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن