بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مالدار شوہر کی مستحق زکات بیوی کو زکات دینا


سوال

میں موبائل کا کام کرتا ہوں ، میری ما ہانہ آمدن  تقریباً 40سے 45ہزار روپے ہےاور میں سال میں کچھ نہ کچھ زکات بھی دیتاہوں، میری اہلیہ جو کہ جیت پورمیمن جماعت سے تعلق رکھتی ہے، وہ جماعت زکات کی رقم سے اپنے لوگوں کی کرائے کی مد میں مدد کرتی  ہیں ، میں جس گھر میں رہتا ہوں، وہ ایک کمرے کا گھر ہےاور میرے تین بچے ہیں، جو میں کماتاہوں اس مہنگائی کے دور میں  اس سے میرا گزارہ ذرا مشکل سے ہوتاہے، اب مجھے دوکمروں کے گھرکی ضرورت ہےاور اس کے اخراجات میں برداشت نہیں کرسکتا،میری اہلیہ یہ چاہتی ہے کہ وہ اپنی جماعت سے کرائے کی مد میں  مدد لے، جیت پورمیمن جماعت  جو بھی مدد کرے گی وہ میری اہلیہ اور اس کے والد کے نام پر کرے گی،کیا شرعا یہ مدد لینا جائز ہے یا نہیں؟

وضاحت:میری اہلیہ صاحب ِ نصاب نہیں ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی اہلیہ  واقعۃً زکوۃ کی مستحق ہے ،یعنی اس   کی ملکیت میں  ساڑھے سات تولہ سونایا  ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی مالیت  یا اس مالیت کا ضرورت سے زائدسامان موجودنہیں اور وہ   ہاشمیہ نہیں، تومذکورہ جماعت کا زکات کی مد میں ان کی مدد کرنا اورسائل کی  اہلیہ کے لیے وہ رقم لینا شرعا درست ہے،زکات دینے والوں کی زکات ادا ہوجائے گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير۔"

(كتاب الزکاۃ ،الباب السابع في المصارف: 1/ 187،ط:دارالفكر)

بدائع الصنائع   میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى المؤدى إليه فأنواع: منها أن يكون فقيرا فلا يجوز صرف الزكاة إلى الغني إلا أن يكون عاملا عليها لقوله تعالى: {إنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله وابن السبيل}۔"

(کتاب الزکاۃ ، ج: 2، ص: 43، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100781

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں