بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مال دار شخص کتنا عمدہ جانور لے؟ والدہ کو خرچ نہ دینے والے کی قربانی کا حکم


سوال

 اگر کسی شخص کے پاس ستائیس لاکھ کی گاڑی ہو تقریبًا پچاس ہزار مالیت کی موٹر سائیکل ہو اور چالیس پچاس لاکھ کی زمین ہو اور اس کی بیوی کے پاس بیس تولہ سونا ہو تو اس شخص کوقربانی کتنے پیسوں کی کرنی چاہیے؟ دوسری بات وہ ہی شخص اپنی ماں کو کچھ خرچہ نہ دیتا ہو،  اس کے لیے قربانی کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ استعمال کی گاڑی، موٹر سائیکل اور رہائشی گھر ضرورت کی اشیاء میں داخل ہیں،خواہ ان اشیاء کی کتنی ہی قیمت ہو، نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ بیوی کے صاحبِ نصاب ہونے سے شوہر کا تعلق نہیں ہے۔

صورتِ  مسئولہ میں اگر  مذکورہ شخص  خود صاحبِ نصاب ہو، یعنی  اس کی تمام زمین رہائش میں استعمال نہ ہو رہی ہو یا مذکورہ اشیاء سے ہٹ کر اس کے پاس  عید الاضحٰی کے دنوں میں ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی ،  یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر نقدی یا مالِ تجارت ہو ، یا ان مذکورہ اموال میں سے کچھ کچھ موجود ہوں جن کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جائے یا ضرورت و استعمال کے علاوہ کسی بھی قسم کا مال یا سامان موجود ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو اور یہ رقم یا مال عید الاضحٰی تک واجب الادا قرض اور ضروری اخراجات سے زائد ہو  تو اس  شخص کو ایک چھوٹے جانور (بکرا یا دنبہ) یا ایک بڑے جانور (اونٹ یا گائے) کے ایک حصے میں قربانی کرنا لازم ہے۔ 

مذکورہ شخص کی بیوی  چوں کہ صاحبِ نصاب ہے؛ لہٰذا اس پر بھی  مستقل قربانی کرنا لازم ہے۔

قربانی کا ذمہ ادا ہونے کے لیے بہت زیادہ عمدہ جانور ہونا شرط نہیں، البتہ جس کی استطاعت ہو اور وہ عمدہ جانور لے تو یہ اس کے لیے ثواب میں زیادتی کا سبب ہوگا۔

تاہم مال دار شخص پر قربانی کا وجوب الگ ہے اور والدہ کی خدمت الگ لازم ہے، لہذا اگر کوئی والدہ کی خدمت نہ کرتا ہو، تب بھی اس پر قربانی واجب ہے اور ادا کرنے سے اس کا ذمہ ساقط ہوجائے گا۔ نیز والدہ اگر خرچے کی محتاج ہو  تو تمام اولاد پر برابری کے ساتھ والدہ کو خرچہ دینا لازم ہے، اگر یہ شخص اس صورت میں والدہ کو خرچہ نہیں دیتا تو یہ گناہ گار ہوگا۔

 "فتاوی شامی" میں ہے:

''وشرائطها: الإسلام و الإقامة و اليسار، (و اليسار بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها...'' الخ

(كتاب الأضحية، ٦/ ٣١٢، ط: سعيد)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 621):

"(و) تجب (على موسر) ولو صغيرًا (يسار الفطرة) على الأرجح ورجح الزيلعي والكمال إنفاق فاضل كسبه. وفي الخلاصة: المختار أن الكسوب يدخل أبويه في نفقته. وفي المبتغى: للفقير أن يسرق من ابنه الموسر ما يكفيه إن أبى ولا قاضي ثمة وإلا أثم (النفقة لأصوله) ولو أب أمه ذخيرة (الفقراء) ولو قادرين على الكسب والقول لمنكر اليسار والبينة لمدعيه (بالسوية) بين الابن والبنت."

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144212200330

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں