بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مالدار شخص کا زکات لینے کا حکم


سوال

خلیفہ بلافصل سیدنا ابوبکر صدیق عتیق رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے کوئی شخص بہت مالدار ہو اور وہ زکات کا مستحق نہ ہو تو کیا اس صورت میں اسے زکات لگتی ہے۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں جب سائل خود واضح کررہا ہے کہ مذکورہ شخص  مالدار ہے اور مستحقِ زکوۃ بھی نہیں ، لہذا اس شخص کے لیے زکوۃ لینا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔

'' فتاوی عالمگیری'' میں ہے:

'' لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. .......ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية ۔ ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي''

( باب المصرف، کتاب الزکاة، 1/189، ط: رشیدیه)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102423

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں