اگر ایک شخص کے پاس سات لاکھ روپے نقد موجود ہوں اور اس پر چھ لاکھ قرض ہو کشت (زراعت) کے لحاظ سے تو زکوۃ کی کیا صورت ہے؟
صورتِ مسئولہ میں کل رقم میں سے قرض کی رقم نکال کر باقی ماندہ رقم چوں کہ نصاب کے برابر پہنچ رہی ہے، لہذا زکات کا سال پورا ہونے پر اگر یہ رقم باقی رہے تو اس باقی ماندہ رقم پر ڈھائی فیصد زکات لازم ہوگی۔
الجوهرة النيرة میں ہے:
"(قَوْلُهُ: وَإِنْ كَانَ مَالُهُ أَكْثَرَ مِنْ الدَّيْنِ زَكَّى الْفَاضِلَ إذَا بَلَغَ نِصَابًا) لِفَرَاغِهِ عَنْ الْحَاجَةِ وَإِنْ لَحِقَهُ فِي وَسَطِ الْحَوْلِ دَيْنٌ يَسْتَغْرِقُ النِّصَابَ ثُمَّ بَرِيءَ مِنْهُ قَبْلَ تَمَامِ الْحَوْلِ فَإِنَّهُ تَجِبُ عَلَيْهِ الزَّكَاةُ عِنْدَ أَبِي يُوسُفَ لِأَنَّهُ يَجْعَلُ الدَّيْنَ بِمَنْزِلَةِ نُقْصَانِ النِّصَابِ. وَقَالَ مُحَمَّدٌ: لَايَجِبُ لِأَنَّهُ يَجْعَلُ ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ الِاسْتِحْقَاقِ وَإِنْ كَانَ الدَّيْنُ لَايَسْتَغْرِقُ النِّصَابَ بَرِيءَ مِنْهُ قَبْلَ تَمَامِ الْحَوْلِ فَإِنَّهُ تَجِبُ الزَّكَاةُ عِنْدَهُمْ جَمِيعًا إلَّا زُفَرَ فَإِنَّهُ يَقُولُ: لَاتَجِبُ".
(كِتَابُ الزَّكَاةِ، شُرُوطُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ، ١ / ١١٥، ط: المطبعة الخيرية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144212202204
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن