بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 رجب 1446ھ 13 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

محلہ میں مسجد ہونے کے باوجود نئی مسجد بنانا


سوال

ہمارے محلے میں ٹوٹل سولہ  گھر ہیں،  محلے میں پہلے سے ایک مسجد موجود ہے ، ہر گھر سے مسجد تک فاصلہ تقریباً پانچ چھ منٹ کا پیدل راستہ ہے،  مسجد میں نماز کے وقت زیادہ سے زیادہ دس گیارہ آدمی ہو تے ہیں،  ابھی اس محلے کا  ایک آدمی دوسری  مسجد بنا رہا ہے ، خود بھی تبلیغی شخص ہے،  اس نے محلے والوں سے مشورہ بھی نہیں کیا ہے،  نئی  مسجد بنا نے سے پہلی  مسجد میں پانچ چھ آدمی رہ جائیں گے، کیا یہ دوسری مسجد بنانا جائز ہے اور اس میں کام کرنا جائز ہے ؛ کیوں کہ اس کے بنانے سے پہلے سے موجود   مسجد متاثر ہو گی؟

جواب

واضح رہے کہ  کسی محلہ میں ایک مسجد پہلے سے موجود ہ ہو اور وہ اہل محلہ کے لیے کافی ہو، اور وہاں پر دوسری مسجد کو تعمیر  کرنےسے پہلی مسجد کے ویران ہونے کا اندیشہ ہو، تو اس محلہ میں دوسری مسجد  تعمیر کرنا درست نہیں ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں جب محلے میں ٹوٹل سولہ گھر ہیں اور مسجد میں نمازی بھی دس گیارہ ہوتے ہیں تو جب  یہ مسجد بھی  نمازیوں سے نہیں بھرتی تو اس صورت میں مذکورہ شخص کا دوسری مسجد کا تعمیر کرنا درست نہیں ہے،اس سے احتراز کیا جائے، پہلی مسجد کو آباد کرنے کی کوشش کی جائے، البتہ اگر مذکورہ شخص نے اس محلہ میں زمین وقف کرکے مسجد بنا دی ، تو اس صورت میں دونوں مسجدوں کو حتی الامکان آباد رکھنا لازم ہوگا۔

تفسير روح المعاني ميں هے:

"ويستفاد من الآية أيضا على ما قيل النهي عن الصلاة في مساجد بنيت مباهاة أو رياء أو سمعة أو لغرض سوى ابتغاء وجه الله تعالى، وألحق بذلك كل مسجد بني بمال غير طيب.وروي عن شقيق ما يؤيد ذلك. وروي عن عطاء لما فتح الله الأمصار على عمر رضي الله تعالى عنه أمر المسلمين أن يبنوا المساجد وأن لا يتخذوا في مدينة مسجدين يضار أحدهما صاحبه."

(سورۃ التوبة، الآیة:107، ج:6، ص:21، ط:دار الكتب العلمية - بيروت)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"قال الطيبي: التعهد والتعاهد الحفظ بالشيء، وفي التعاهد المبالغة ; لأن الفعل إذا أخرج على زنة المبالغة دل على قوته كما في الكشاف في قوله تعالى:{يخادعون الله}[البقرة: 9] وورد في بعض الروايات وهي رواية للترمذي: يعتاد بدل يتعاهد، وهو أقوى سندا وأوفق معنى لشموله جميع ما يناط به المسجد من العمارة، واعتياد الصلاة وغيرها، ألا ترى إلى ما أشهد به النبي صلى الله عليه وسلم بقوله: فاشهدوا له، أي: اقطعوا له القول بالإيمان ; لأن الشهادة قول صدر عن مواطأة القلب على سبيل القطع، وقال ابن حجر: بل التعهد أولى ; لأنه مع شموله لذلك يشمل تعهد ما بالحفظ والعمارة والكنس والتطيب وغير ذلك، كما يدل عليه استشهاده عليه  السلام بالآية الآتية (فإن الله) : وفي نسخة: تعالى يقول: {إنما يعمر مساجد الله} [التوبة: 18] ، أي: بإنشائها أو ترميمها أو إحيائها بالعبادة والدروس {من آمن بالله واليوم الآخر} [البقرة: 62] ، قال صاحب الكشاف: عمارتها كنسها وتنظيفها وتنويرها بالمصابيح، وتعظيمها واعتيادها للعبادة والذكر، وصيانتها عما لم تبن له المساجد من حديث الدنيا، فضلا عن فضول الحديث."

(کتاب الصلاۃ، باب المساجد ومواضع الصلاة، ج:2، ص:606، ط:دار الفكر، بيروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"من بنى مسجدا لم يزل ملكه عنه حتى يفرزه عن ملكه بطريقة ويأذن بالصلاة أما الإفراز فلا؛ لأنه لا يخلص لله تعالى إلا به، كذا في الهداية."

(کتاب الوقف، الباب الحادي عشر في المسجد وما يتعلق به ، الفصل الأول فيما يصير به مسجدا وفي أحكامه وأحكام ما فيه، ج:2، ص:454، ط:دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101374

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں