ایک لڑکی کا نکاح ہوا،نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے کچھ باتوں پر اختلاف ہوا(اور اس لیے بھی کہ لڑکی والے کچھ آ زاد خیال اورلڑکے والے پردے کے پابند ہیں) ،جس پر لڑکی والوں نے کہا کہ ہم اپنی بیٹی تم لوگوں کو نہیں دیتے ہیں،لڑکا اب بھی اس لڑکی کے ساتھ شادی کرنے کے لیے تیار ہے ،لیکن لڑکی والوں نے کہا کہ ہم تم کو مہر میں لکھا ہوا سونااور کمرہ وغیرہ معاف کرتے ہیں جس کےبدلے لڑکا ہماری بیٹی کو طلاق دےدے ،لڑکے کے خاندان والے کہتے ہیں کہ نکاح پر ہماراکافی خرچہ ہوا ہے ،اس کے ساتھ کپڑوں کی صورت میں اس لڑکی کوہدایہ بھیجےگئے ہیں، اور لڑکی کے والد صاحب کے عدالتی کیسوں پر ہمارا خرچہ ہوا ہے ،نیز ہم نے انہیں بھرائی کے لیے مٹی بیچی ہےاور اس کی قیمت میں ان کے ساتھ رعایت کی ہے،یہ سب ہم نے رشتہ داری کی بنیاد کیاتھا، اب جب یہ لوگ بغیر کسی وجہ کے رشتہ داری ختم کرنا چاہتے ہیں اور طلاق کا مطالبہ کرتے تو ہم مہر پر طلاق نہیں دینا چاہتے، بلکہ مہر سے زیادہ پیسے لیں گے،پھر ہم لڑکی کو طلاق دیں گے ،کیا لڑکے کے خاندان والوں کی طرف سے یہ مطالبہ درست ہے یا نہیں؟
و اضح رہے کہ طلاق انتہائی نا پسندیدہ عمل ہے، جس سے حتی ٰ الامکان بچنے کی کوشش کرنی چاہیے،نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی خاتون کو جنت کی خوشبوتک سے محروم قراردیاہے جو بلاوجہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہو، لہذا صورتِ مسئولہ میں مصالحت کی ہر ممکن تدبیر اختیار کرنی چاہیے، تاہم اگر مصالحت کی کوئی تدبیر بارآور نہ ہو ، اور طلاق تک بات پہنچ جائے،تو نکاح کی تقریب پر ہونے والے اخراجات کا مطالبہ کرنا شرعاًجائز نہیں ہوگا، تاہم اگر قصوروار منکوحہ ہے تومال پر طلاق دینے کی صورت میں یاخلع کے عنوان سے لڑکے والوں کی طرف سے مہر سے زیادہ رقم کامطالبہ کرنااور یہ رقم لیناشرعاًجائز ہے،تاہم مہر سے زیادہ رقم کا مطالبہ بہتر نہیں ہے ۔
نیز نکاح و عدالتی کیسوں پر آنے والے اخراجات کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے :
"وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع. اهـ. ط، وهذا هو الحكم المذكور في الآية."
(كتاب الطلاق،باب الخلع، ج:3، ص:441، ط: سعید)
البناية شرح الهداية للعيني میں ہے :
"م: (وإن طلقها على مال) ش: بأن قال طلقتك على ألف درهم مثلا م: (فقبلت) ش: في المجلس م: (وقع الطلاق ولزمها المال) ش: المذكور، وكذا الحكم إذا قال خلعتك على ألف درهم وبارأتك على ألف درهم، وكذا إذا بدأت المرأة فقالت طلقني على ألف درهم، أو خالعني أو بارئني."
(كتاب الطلاق،باب الخلع، ج:5، ص:513، ط: العلمية - بيروت)
فتاوی شامی میں ہے :
"(وكره) تحريما (أخذ شيء) ويلحق به الإبراء عما لها عليه (إن نشز وإن نشزت لا) ولو منه نشوز أيضا ولو بأكثر مما أعطاها على الأوجه فتح، وصحح الشمني كراهة الزيادة، وتعبير الملتقى لا بأس به يفيد أنها تنزيهية وبه يحصل التوفيق
و في الرد: (قوله: ولو منه نشوز أيضا) لأن قوله تعالى - {فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229]- يدل على الإباحة إذا كان النشوز من الجانبين بعبارة النص، وإذا كان من جانبها فقط بدلالته بالأولى (قوله: وبه يحصل التوفيق) أي بين ما رجحه في الفتح من نفي كراهة أخذ الأكثر وهو رواية الجامع الصغير، وبين ما رجحه الشمني من إثباتها وهو رواية الأصل، فيحمل الأول على نفي التحريمية والثاني على إثبات التنزيهية، وهذا التوفيق مصرح به في الفتح، فإنه ذكر أن المسألة مختلفة بين الصحابة وذكر النصوص من الجانبين ثم حقق ثم قال:وعلى هذا يظهر كون رواية الجامع أوجه، نعم يكون أخذ الزيادة خلاف الأولى، والمنع محمول على الأولى اهـ. ومشى عليه في البحر أيضا."
(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج: 3 ، ص : 445، ط:سعید)
البحر الرائق میں ہے :
"(قوله فلو وهب ثم نكح رجع وبالعكس لا) أي لو نكح ثم وهب لا يرجع لأن المعتبر حالة الهبة وفي الأول لم تكن منكوحة بخلاف الثاني ولهذا لو أبانها بعد الهبة لم يكن له أن يرجع فيها."
(كتاب الهبة، باب الرجوع في الهبة، ج:7، ص:294، ط: دار الكتاب الإسلامي)
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے :
"المتبرع لا يرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره. اهـ."
(كتاب المداينات،ج2:،ص:226،ط: دار المعرفة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144606102419
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن