بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مال کمانے کی حد


سوال

 ایک مسلمان کے لیے کس قدر مال کمانا فرض ہے؟ کس قدر مال کمانا سنت ہے؟ کس قدر مستحب اور اولیٰ ہے؟ اور کس قدر مال کمانا حرام یا مکروہ ہے؟ اس بارے میں شریعت کا نقطہ نظر دلائل شریعہ کے ساتھ مدلل بیان فرمادیں۔

جواب

واضح رہے کہ  حضور ﷺ  کا  ارشاد ہے کہ  حلال روزی کمانا فرض کے بعد ایک فرض ہے ، اپنی اور اپنے اہل وعیال کی  معاشی ضروریات کی کفالت کے لیے  اپنے دست بازو کی محنت  سے کمانا فرض ہے ،اسی طرح کسب یعنی کمانا فرض بھی ہے  اور مستحب بھی ، اسی طرح مباح بھی ہے اور حرام بھی،  چنانچہ اتنا کمانا فرض  ہے جو کمانے والے اور اس کے  اہل وعیال کی معاشی ضروریات کے لیے  اور اگر اس کے  ذمہ  قرض ہو تو   اس کی ادائیگی کے لیے  کافی ہو جائے ،اس سے   زیادہ کمانا مستحب ہے بشرطیہ کہ اس نیت  کے ساتھ زیادہ  کمائے کہ اپنے اوراپنے اہل وعیال کی ضرورت سے جو کچھ بچے گا وہ فقراء و مساکین  اور اپنے  دوسرے اقرباء پر خرچ کر وں گا ، اسی طرح ضروریات زندگی سے زیادہ کمانا اس  صورت میں مباح ہے جب کہ نیت اپنی  شان  وشوکت اور  اپنے وقار اور تمکنت کی حفاظت ہو ، البتہ  محض  مال ودولت جمع کر کے  فخر وتکبر  کے اظہار کے لیے زیادہ حرام ہے اگر چہ حلال ذرائع ہی  سے کیوں نہ کمایا جائے ۔

المبسوط للسرخسي ميں ہے:

"ثم الكسب نوعان: كسب من المرء لنفسه وكسب منه على نفسه فالكاسب لنفسه هو الطالب لما لا بد له من ‌المباح والكاسب على نفسه هو الباغي لما عليه فيه جناح نحو ما يكون من السارق والنوع الثاني منه حرام بالاتفاق".

(کتاب الکسب ،246/30،مطبعة السعادة)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

(عن عبد الله) : أي: ابن مسعود كما في نسخة (قال: قال رسول الله، صلى الله عليه وسلم (‌طلب ‌كسب ‌الحلال فريضة) : أي على من احتاج إليه لنفسه، أو لمن يلزم مؤنته، والمراد بالحلال غير الحرام المتيقن ليشمل المشتبه لما مر في الأحاديث: أن التنزه عن المشتبه احتياط لا فرض، ثم هذه الفريضة لا يخاطب بها كل أحد بعينه، لأن كثيرا من الناس تجب نفقته على غيره، وقوله (بعد الفريضة) : كناية عن أن فرضية ‌طلب ‌كسب ‌الحلال لا تكون في مرتبة فرضية الصلاة والصوم والحج وغيرها، فالمعنى أنه فريضة بعد الفريضة العامة الوجوب على كل مكلف بعينه، وقيل: معناه أنه فريضة متعاقبة يتلو بعضها البعض لا غاية لها، إذ كسب الحلال أصل الورع وأساس التقوى

(مرقاة المفاتيح، کتاب البیوع، باب الكسب وطلب الحلال 5/ 1904 ط: دار الفكر، بيروت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144501101231

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں