بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مال حرام کا حکم


سوال

میں  نے اپنے بینک اکاؤنٹ میں فکس ڈپازٹ سے سود وصول کیا اور یہ  رقم کسی دوسرےشخص کو بطور قرض دے دی، قرض لینے والے نے کچھ عرصے بعد قرض واپس کر دیا، مجھے قرض لینے والے سے جو رقم ملی وہ حلال ہے یا حرام ہے؛ کیوں کہ  یہ سودی آمدنی تھی؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل کےلیےسودی رقم جس طرح قرض پردینےسےپہلےاستعمال کرنا ناجائز و  حرام تھا، اسی طرح وہ رقم قرض پردینے کےبعدبھی  اس کےلیے ناجائز وحرام ہے، لہذا سائل پر بغیرنیتِ ثواب کے اس رقم کوصدقہ کرنالازم ہے۔

شامی میں ہے:

"مطلب فيمن ورث مالًا حرامًا

... و الحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، و إلا فإن علم عين الحرام لايحلّ له و يتصدق به بنية صاحبه."

(باب البیع الفاسد،ج:5،ص:99،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308101405

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں