بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مالِ حرام غیرمسلم کو قرض کے عوض دینے سے حلال ہونے کا حکم


سوال

 بعض لوگ کہتے ہیں کہ کسی غیر مسلم سے قرض لیا جائے اور پھر حرام کے پیسے قرض کے عوض اسے دیا جائے، تو حرام پیسے حلال ہوجائیں گے، آپ حضرات سے سوال یہ ہے کہ کیا اس طریقہ سے حیلہ کرنا جائز ہے؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں حرام  مال کو حلال کرنے کے لئے مذکورہ حیلہ کرنا یعنی مالِ حرام سےغیرمسلم کا قرضہ اتارنا جائز نہیں ہے، اس  لیے کہ حرام مال کو استعمال کرنا اور اس سےکسی بھی طرح کا  فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے ، لہذامذکورہ  رقم کسی کافر کو دے کر ملکیت تبدیل   کرنے کاحیلہ کرنے سےمالِ حرام  حلال نہیں ہوگا، بلکہ اس کا درجِ ذیل حکم ہے:

اگر مالِ حرام کا مالک معلوم ہو اور وہ بلاعوض حاصل کیا گیا ہو، جیسے: سود، چوری، رشوت وغیرہ تو اس کے مالک کو واپس کرنا ضروری ہے، یعنی  وہ جہاں سے آیا ہے وہیں اسے واپس دے دیا جائے، مالک وفات پاچکا ہو تو اس کے ورثاء کو لوٹا دیا جائے۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو  ثواب کی نیت کے بغیر  اسے مستحقِ زکاۃ کو صدقہ کرنا ضروری ہے، اور اگر وہ بالعوض حاصل کیا گیا ہو، جیسے حرام ملازمت وغیرہ کے ذریعے تو اسے مالک کو واپس کرنا درست نہیں ہے، بلکہ اس کا یہی ایک مصرف ہے کہ اسے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیا جائے۔

امداد الفتاویٰ میں ہے:

سوال (128) جواری دغاباز اعنی کسب حرام والے تائب ہو کر اگر چاہیں کہ اپنے مال کو خدا کی راہ میں صرف کریں تو اس کی کیا صورت ہے...کوئی شرعی حیلہ حلال کرنے کا ہے یا نہیں؟

الجواب، وہ مال حرام رہتا ہے، جو لوگ فقر و فاقہ سے بہت پریشان ہوں ایسوں کو وہ مال بنیت رفع حاجت دینا چاہئے، نہ بہ نیت حصول ثواب ، اور اگر وہ شخص جس سے وہ مال ان لوگوں کا حاصل ہوا ہے وه با تعیین با تخصیص معلوم ہو تو اسکو واپس کر دینا چاہئے، اور حرام کو حلال کرنے کے لئے کوئی حیلہ مفید نہیں...

فقط واللہ تعالیٰ اعلم

(مالِ حرام ومشتبہ کے احکام، عنوان: حکمِ مالِ حرام بعد توبہ، ج:4، ص:144، ط:دارالعلوم کراچی)

مجموعۃ الفتاویٰ میں ہے:

"ما في الوجود من الأموال المغصوبة والمقبوضة بعقود لا تباح بالقبض، إن عرفه المسلم اجتنبه. فمن علمت أنه سرق مالا أو خانه في أمانته، أو غصبه... لم يجز لي أن آخذه منه؛ لا بطريق الهبة...ولا وفاء عن قرض". اهـ.

(قواعد جامعة في عقود المعاملات والنكاح النهى بؤخذ من الشرع لولم يعلل، أصول في التحريم والتحليل، ج:29، ص:178، ط: مكتبه العبيكان)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وجاز أخذ دين على كافر من ثمن خمر) لصحة بيعه (بخلاف) دين على (المسلم) لبطلانه ... وفي الأشباه الحرمة تنتقل.

(قوله: و في الأشباه إلخ) قال الشيخ عبد الوهاب الشعراني في كتاب المنن: وما نقل عن بعض الحنفية من أن الحرام لايتعدى إلى ذمتين سألت عنه الشهاب ابن الشلبي فقال: هو محمول على ما إذا لم يعلم بذلك، أما من رأى المكاس يأخذ من أحد شيئا من المكس، ثم يعطيه آخر ثم يأخذه من ذلك الآخر فهو حرام اهـ".

(کتاب الحظر والاباحۃ، فصل في البيع، ج:6، ص:385، ط:ایچ ایم سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144506101787

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں