عام طور پر ہم ایک سال بعد زکوۃ نکالتے ہیں ،میرے پاس 2 مہینہ پہلے پیسے آئے ہیں، کیا ان پیسوں پر بھی زکوۃ ادا کرنی ہوگی؟
اگر کوئی شخص پہلے سےصاحبِ نصاب ہو اور سال گزرنے سے پہلےاُس کے پاس مزید مال آجائے توزکوۃ کا سال پورا ہونے پر موجود مال( چاہے اس پر سال گزر گیا ہو یا سال گزرنے سے پہلےملکیت میں آیا ہو) کے مجموعہ میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرنا ضروری ہوتا ہے، سال گزرنے سے پہلے ملکیت میں آنے والے مال پر الگ سےنیا سال گزر جانا ضروری نہیں۔
لہذ اصورتِ مسئولہ میں جب آپ پہلے سےصاحبِ نصاب ہیں،تو آپ کے پاس 2 مہینہ پہلےجو پیسے آئے ہیں اس پر الگ سےمکمل سال گزرنا ضروری نہیں،بلکہ آپ کے ذمہ موجودسارے مال کے مجموعہ میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ اد اکرنا لازم ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالًا من جنسه ضمّه إلی ماله و زکّاه سواء کان المستفاد من نمائه أولا و بأي وجه استفاد ضمّه سواء كان بمیراث أو هبة أو غیر ذلك."
(كتاب الزكاة،الباب الأول،ج:1،ص:175،ط:المطبعة الکبریٰ الأمیریة ببولاق مصر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509100190
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن