بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مکتب کے بچوں کو حافظ یا مولوی صاحب کے بجائے حضرت کہنا


سوال

 ہمارے یہاں ایک مکتب میں بچوں کو حافظ یا مولوی صاحب بولنے سے روکتے ہیں، اور’’ حضرت ‘‘بولنے کو کہتے  ہیں، تو کیا’’ حضرت‘‘ بولنا جائز ہے؟

جواب

ہر علاقہ، قوم ، ادارے اور علم و فن میں کچھ  خاص اصطلاحات ہوتی ہیں جن سے ہر ایک کی شناخت بحیثیت عہدہ ،منصب اور فضل و کمال ہوتی ہے،اسی طرح لفظ ’’حافظ اور مولوی صاحب ‘‘ہمارے معاشرے میں ایک اصطلاح خاص کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

لغت عرب کے لحاظ سے لفظ ’’مولیٰ‘‘ ادنی اور اعلی دونوں  معنی ٰکے لئے استعمال ہوتا ہے،اور علماء عربیت نے اس کے پچاس سے زائد معانی بیان کیے ہیں ، لیکن ہمارے عرف میں دین دار عوام، مشائخ اور اکابرین اسلام نے دین و شریعت کا علم حاصل کرنے والوں کی عزت و احترام کے طور پر  اس لفظ کو علماء دین کے لئے اتنی کثرت سے استعمال کیا ہے کہ اب یہ لفظ ان کی پہچان اورتقریباً  ان کے لئے مختص ہوگیا ہے،اسی طرح ’’حافظ صاحب ‘‘  عام طورپر  ان خوش قسمت افراد کو کہا جاتا  ہے جن کو  پورا قرآن مجید یاد ہو،اور یہ دونوں الفاظ معاشرے میں ایک دینی تشخص بھی رکھتے ہیں ، لہذا زیر نظر صورت میں بچوں کو  مکتب کے  علماء وحفاظ اساتذہ کو ’’مولوی صاحب یا حافظ صاحب ‘‘کہنے سے روکنا درست نہیں ہے ۔

نیز لفظ’’ حضرت‘‘بھی اردو زبان میں ادب واحترام کے لیے استعمال ہوتا ہے ،لہذا بچوں کا اپنے اساتذہ  کو حضرت کہہ کر پکارنا بھی جائز ہے ،لیکن اس کو لازم کرنا اور اس کے علاوہ کسی اور ادب واحترام کے القابات سے پکارنے پرپابندی لگانا درست نہیں ہے ۔ 

مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"وعن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌أنزلوا ‌الناس ‌منازلهم» . رواه أبو داود."

(کتاب الاٰداب،باب الشفقة والرحمة،الفصل الثانی،ج:3،ص:1391،رقم:4989،ط:المكتب الإسلامي)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"وعن عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: أنزلوا الناس) : أمر من الإنزال وقوله: (منازلهم) منصوب بنزع الخافض قيل: أي: مقاماتهم المعينة المعلومة لهم قال تعالى حكاية عن الملائكة: " {وما منا إلا له مقام معلوم} [الصافات: 164] " ولكل أحد مرتبة ومنزلة لا يتخطاها إلى غيرها، فالوضيع لا يكون في موضع الشريف، ولا الشريف في منزل الوضيع، فاحفظوا على كل أحد منزلته، ولا تسووا بين الخادم والمخدوم، والسائد والمسود، وأكرموا كلا على حسب فضله وشرفه."

(کتاب الاٰداب،باب الشفقة والرحمة علی الخلق،ج:8،ص:3125،ط:دار الفكر)

لسان العرب میں ہے :

"الحفظ نقيض النسيان و هو التعاهد و قلة الغفلة ... الأزهري: رجل حافظ و قوم حفاظ و هم الذين رزقوا حفظ ما سمعوا و قلما ينسون شيئًا يعونه."

(ظ،‌‌فصل الحاء المهملة،ج7،ص441،ط:دار صادر)

الاعتصام للشاطبي میں ہے:

"ومنها: ‌التزام ‌الكيفيات والهيئات المعينة، كالذكر بهيئة الاجتماع على صوت واحد، واتخاذ يوم ولادة النبي صلى الله عليه وسلم عيدا، وما أشبه ذلك..ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته..وثم أوجه تضاهي بها البدعة الأمور المشروعة، فلو كانت لا تضاهي الأمور المشروعة لم تكن بدعة، لأنها تصير من باب الأفعال العادية."

(الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها وما اشتق منه لفظا، ج:1، ص:53، ط:دار ابن عفان، السعودية)

العقود الدرية في تنقيح فتاوي الحامدية  میں ہے:

"فائدة:كل ‌مباح ‌يؤدي إلى زعم الجهال سنية أمر أو وجوبه فهو مكروه كتعيين السورة للصلاة وتعيين القراءة لوقت ونحوه."

(كتاب الفرائض، ج:2، ص:574، ط:قديمي كتب خانه)

حضرت مولانا اشر ف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’مولوی اسی کو کہتے ہیں جو مولیٰ والا ہو، یعنی علمِ دین بھی رکھتا ہو اور متقی بھی ہو، خوفِ خدا وغیرہ اخلاقِ حمیدہ رکھتا ہو۔‘‘  

نیز لکھتے ہیں:’’مولوی میں نسبت ہے مولی کی طرف، یعنی مولیٰ والا‘‘۔

( التبلیغ، ص:133، جلد اول بحوالہ تحفۃ العلماء از مولانا محمد زید، ج:1، ص:57،ط: مکتبہ عمر فاروق کراچی)

 امداد الفتاوی جدید  میں ہے :

’’علماء نے اس کو رد کیا ہے:کما في ردالمحتار أول باب الأذان، قیل: وعند إنزال المیت القبر قیاساً علی أول خروجه للدنیا، لکن رده ابن حجر في شرح العباب".
بالخصوص جب کہ عوام اس کااہتمام والتزام بھی کرنے لگیں،کما هو عادتهم في أمثال هذه   کہ التزام مالا یلزم سے مباح بلکہ مندوب بھی منہی عنہ ہو جا تا ہے۔کما صرّح به الفقهاء وفرعوا علیه أحکاماً‘‘.

(اصلاح الرسوم میں قبروں پر چادریں چڑھانے پر ایک شبہ کا جواب،ج:11،ص:436،ط:زکریا بک ڈپو)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101211

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں