دوتین افراد ایک گاؤں میں دینی مکتب شروع کرناچاہتے ہیں،اس گاؤں اوراس کے اطراف میں کوئی مدرسہ یا مکتب کا نظم نہیں ہے اور بے دینی بہت ہے تواس گاؤں کے دوتین افراد مل کرمکتب شروع کررہے ہیں ،اس میں ایک شخص نے کہا کہ میرے پاس زکوۃ کے پیسےہیں، اگریہ پیسے مکتب کے معلم کو دیناجائزہے تومیں پانچ ہزار ہرماہ دوں گاتوکیاشرعی طورپریہ شخص مکتب کے معلم کو زکوۃ کے پیسے دے سکتاہے ؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کازکاۃ کی مد سےمکتب کے معلم کو تنخواہ دینا جائز نہیں، اور نہ ہی اس طرح تنخواہ دینے سے زکاۃ ادا ہوگی اگرچہ مکتب کا معلم زکاۃ کا مستحق ہو،اہلِ محلہ میں سے اصحابِ حیثیت پر لازم ہے کہ باہمی رضامندی سے چندہ کرکے معلم کی تنخواہ کا بندوبست کریں،نیز اگر طے شدہ تنخواہ سے معلم کی ضروریات پوری نہ ہوں اور وہ سید نہ ہو تو زکوۃ سے تعاون کر سکتے ہیں۔
اگراس کے علاوہ کوئی اورصورت ممکن نہ ہواورمکتب کی اشد ضرورت ہوتوکسی مستحق آدمی کو زکوۃ کی رقم کامالک بناکریہ رقم مکتب کے معلم کو دینے کی ترغیب دی جاسکتی ہے،اگروہ اپنی رضامندی سے زکوۃ وصول کرکے معلم کو دے دےگاتوضرورت کے بقدر ایساکرنے کی گنجائش ہوگی۔
الدرمع الردمیں ہے:
"دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز إلا إذا نص على التعويض، ولو دفعها لأخته ولها على زوجها مهر يبلغ نصابا وهو مليء مقر، ولو طلبت لا يمتنع عن الأداء لا تجوز وإلا جاز ولو دفعها المعلم لخليفته إن كان بحيث يعمل له لو لم يعطه وإلا لا.
(قوله: وإلا لا) أي؛ لأن المدفوع يكون بمنزلة العوض ط وفيه أن المدفوع إلى مهدي الباكورة كذلك فينبغي اعتبار النية، ونظيره ما مر في أول كتاب الزكاة فيما لو دفع إلى من قضي عليه بنفقته من أنه لا يجزيه عن الزكاة إن احتسبه من النفقة وإن احتسبه من الزكاة يجزيه."
(كتاب الزكوة ،فروع في مصرف الزكاة ج : 2 ص : 356 ط : سعيد)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
"فهي تملیك المال من فقیر مسلم ... بشرط قطع المنفعة عن المملك من کل وجه."
(كتاب الزكوة ، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها ج : 1 ص : 170 ط : رشيدية)
الدر المختار ميں ہے :
"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه)"
"(قوله: تمليكا) فلا يكفي فيها الإطعام إلا بطريق التمليك."
( کتاب الزکوۃ ، باب مصرف الزکوۃ و العشر، ج : 2 ص: 344 ط: سعید)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين."
(کتاب الزکوۃ ، الباب السابع : فی المصارف ، ج:1 :ص:188، ط : رشیدیة)
فتاوی رحیمیہ میں ہے :
"سوال : ہماری بستی کے ہر محلہ میں ایک مکتب ہے جس میں ناظرہ ، اردو ، دینیات ،تعلیم الاسلام وغیرہ کی تعلیم ہوتی ہے ،اسی قسم کا ایک مکتب "نورالاسلام " نامی چلارہاہے ، جس میں پانچ سو مقامی بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں ، مدرسہ کی آمدنی صرف چندہ(جو چھ ہزار ہوتی ہے ) ہے ، اور فی بچہ ماہانہ آٹھ آنے ، اس طرح کل دس ہزار آمدنی ہو جاتی ہے ، اور خرچ اٹھارہ ہزار روپے ، باقی آٹھ ہزار روپے زکوۃ کے پیسوں میں سے خرچ کئے جائیں ، گو جائز ہے یا نہیں ؟ یعنی مذکورہ صورت میں زکوۃ کا مصرف مدرسہ ہوگا یا نہیں ؟
جواب : صورت مسئولہ میں زکوۃ کی رقم مدرسہ کی تعمیر اور مدرسین و ملازمین کی تنخواہ میں استعمال کرنا درست نہیں ہے ، زکوۃ اداء نہ ہو گی ، جوازکی صورت یہ ہے کہ فیس بڑھاکر ایک روپیہ یا کم وبیش کردی جائے اور زکوۃ کی رقم مستحقین طلبہ کو ماہانہ بطور امداد یا وظیفہ دی جائے اور پھر فیس میں وصول کرلی جائے تو زکوۃ اداء ہو گی اور اس کے بعد یہ رقم تنخواہوو غیرہ میں خرچ کرنا جائز ہوگا۔"
( کتاب الزکوۃ ، باب مصارف زکوۃ ، ج: 7 ص: 176، 177 مکتبہ: دارالاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404100433
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن