بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 ذو القعدة 1445ھ 21 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مکتب کے بچوں پر detention(مالی اور جسمانی سزا) عائد کرنا


سوال

 ایک مکتب میں بچوں کو سزا اسطرح دی جاتی ہے کہ جب بچوں کو سبق یاد نہیں ہوتا تو انکو سزا کے طور پر آدھ ایک گھنٹہ ان کو پیچھے روکا جاتا ہے جس کو یہاں کی اصطلاح میں detention کہتے ہیں. اس سزا کے ساتھ بچوں سے پیسے بھی لئے جاتے ہیں. یہ معمولی رقم ہوتی ہے، یہاں کے اعتبار سے دو تین پونڈ ( 3£/2£) پوتے ہیں. اس کی وجہ یہ کہتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ہی سزا ان پر بھاری ہو گی اور آئندہ وہ بچے دوبارہ ایسی غلطی نہ کریں گے اور سبق بھی اچھی طرح یاد کریں گے، ساتھ میں اس کی وجہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ استاد جو ان کو لے کر بیٹھا ہے، انہوں نے جو وقت detention کے لیے فارغ کیا ہے، اس کی تنخواہ اس پیسوں سے پوری ہو جائے گی. سوال یہ ہے کہ آیا بچوں سے سزا کے طور پر detention کے ساتھ پیسے بھی لینا شرعاً درست ہے یا نہیں؟ اور وہ پیسے جو بچوں سے لیے جاتے ہیں ، اس کو کن چیزوں میں استعمال کر سکتے ہیں؟ کیا استاد کی تنخواہ کے لیے استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ غلطی پر تنبیہ کرنے کیلئے سزا کے طور پر طالب علم کی چھٹی بند کرنا، یا اس کو کچھ دیر تک روکے رکھنے کی گنجائش ہے۔البتہ طلباء سے مالی  جرمانہ وصول کرنا ناجائز ہے، اورجن سے جرمانے کی رقم وصول کر لی گئی ہو انہی کو مذکورہ رقم واپس کرنا لازم ہے، البتہ اگر بالغ طالب علم یا نابالغ کا سرپرست بخوشی وہ رقم مدرسے میں لگانے  یا استاد کو دینے کی اجازت دے دے تو مدرسہ  یہ رقم وصول اور استعمال کرسکتا ہے، بصورت دیگر مدرسے والوں کے لیے یہ وصول کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، بلکہ واپس کرنا لازم ہوگا۔

مجمع الأنہر میں ہے:

"ولا یکون التعزیر بأخذ المال من الجانی فی المذهب."

(مجمع الأنہر ، کتاب الحدود ،باب التعزیر ۱؍۶۰۹ ،بیروت)

النہر الفائق میں ہے:

"(وفي شرح الآثار) ‌التعزير ‌بأخذ ‌المال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ، كذا في (المجتبى) وعندهما وباقي الأئمة الثلاثة لا يجوز التعزير به."

(النهر الفائق شرح كنز الدقائق،‌‌كتاب الحدود،فصل في التعزير، 3/ 165،الناشر: دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."

( البحر الرائق شرح كنز الدقائق،كتاب الحدود، باب حد القذف، فصل في التعزير، 44/5 ، الناشر: دار الكتاب الإسلامي)

شامی میں ہے:

"لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعی."

(شامی / باب التعزیر، مطلب فی التعزیر بأخذ المال،ج: ۴، ص: ۶۱)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101053

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں