بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مکتب کی بچوں سے فیس لینا/ مسجد میں مکتب کے بچوں کو تعلیم دینے کا حکم


سوال

 ہمارے یہاں الحمد للہ ایک صاحب خیر کی طرف سے مکتب کیلئے جگہ فراہم کی گئ ہے ،جس میں الحمد للہ تقریبا ۲۵۰ دو سو پچاس بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کرتے ہیں، جس میں ایک نظا م کے تحت مکمل نصاب کے ساتھ تعلیم جاری ہے ،نورانی قاعدہ ،قرآن مجید ، تعلیم الاسلام، دینی تعلیم کا رسالہ ،مسنون دعائیں وغیرہ شامل ہے ،جس میں پڑھانےوالے سات اساتذہ ہیں ،تین مقامی اور چار غیر مقامی،جن کا مکمل خرچہ ( مکان کا کرایہ ،تنخواہ ،نیز سال میں دو مرتبہ گھر آنے جانے کا خرچہ )مکتب کے ذمہ ہے ،تو ان اخراجات کے لئے بچوں سے حسب استطاعت فیس لی جاتی ہے، کچھ بچے کم فیس دیتے ہیں، کچھ نہیں بھی دیتےہے،تو صاحب خیر حضرات تعاون کرتے ہیں ،یہ کل اخراجات فیس سے پورے نہیں ہوتے، اس لئے مکتب کہ ذمہ داران اپنی طرف سے رقم کا انتظام کرتے ہیں ۔

1:توکیا بچوں سے فیس لےکر اس طرح کا انتظام کرنا درست ہےیا نہیں؟

2:بچوں سے فیس نہ لیتے ہوئے زکوۃ کی رقم سے انتظام کیا جاسکتا ہے؟

3:ہمارے یہاں کچھ لوگوں کا کہنا ہے، کہ بچوں سے فیس لینا درست نہیں، دوسرا مسئلہ یہ ہیکہ کیا اس طرح نظام شرعی مسجد (احاطہ مسجد ) کےباہر کچھ روم بنے ہیں، اس میں کرنا درست ہے؟

جواب

1: بچوں سے تعلیمی فیس لینا درست ہے،  نیز اگر اس فیس کا انتظام کوئی دوسرا شخص کرتاہے ،تو پڑھانے والے کے لیے یہ رقم لینا جائز ہوگی،  بشرطیکہ  یہ رقم زکاۃ کی مد میں سے نہ ہو۔ ہاں اگر بچے کا والد مستحقِ زکاۃ ہو اور تعاون کرنے والا زکاۃ وغیرہ کی رقم بچے کے والد کو مالک بناکر دے دے کہ وہ جس مصرف میں چاہے صرف کردے، پھر وہ اس سے بچے کی تعلیمی فیس ادا کردے تو اس کی اجازت ہوگی۔

2:زکات اور صدقاتِ واجبہ (مثلاً: نذر، کفارہ، فدیہ اور صدقہ فطر) ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے، کہ  اسے کسی مسلمان مستحقِ زکاۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے، اس لیے مدرسین کو  زکوٰۃ کی رقم سے تنخواہیں دینا جائز نہیں ہے، کیوں کہ تنخواہ کام کے عوض میں ہوتی ہے کہ جب کہ زکاۃ بغیر عوض کے مستحق کو مالک بناکر دینا ضروری ہوتا ہے،اگر کسی مدرسے میں طلباسے وصول کی جانے والی فیسوں سے مدرسین کی تنخواہیں پوری نہ ہوتی ہوں،یاتنخواہیں تو پوری ہوتی ہوں مگر تنخواہوں کے علاوہ مدرسہ کے اور اخراجات بھی ہوں  ان فیسوں سے پورے نہ ہوتے ہوں، توایسے میں مدرسے کامنتظم لوگوں سے صدقات وعطیات وصول کرسکتاہے البتہ جو صدقات واجب  التملیک ہوں ،تو ان کومدرسہ کے کاموں میں  صرف کرنے سے پہلے ان کی تملیک   ضروری ہے ،و مدرسہ کے منتظمین کو چاہیے کہ وہ اولاً زکوۃ کی رقوم مستحق ِزکوۃ  طلباء کو مالک بناکر دے دیں ،  پھر  طلباء  سے قیام وطعام اور تعلیم وغیرہ کی مد میں بطور ِفیس واپس لے لیں،  اور اس سے مدرسہ کی ضروریات  واخرجات پوری کریں۔

3:   مدرسہ یا مکتب مسجد کی حدود سے باہر کمروں میں قائم  کرنا درست ہے۔

البحر الرائق  میں ہے:

"قال - رحمه الله -: "(والفتوى اليوم على جواز الاستئجار لتعليم القرآن) ، وهذا مذهب المتأخرين من مشايخ بلخ استحسنوا ذلك، وقالوا: بنى أصحابنا المتقدمون الجواب على ما شاهدوا من قلة الحفاظ ورغبة الناس فيهم؛ ولأن الحفاظ والمعلمين كان لهم عطايا في بيت المال وافتقادات من المتعلمين في مجازات التعليم من غير شرط، وهذا الزمان قل ذلك واشتغل الحفاظ بمعائشهم فلو لم يفتح لهم باب التعليم بالأجر لذهب القرآن فأفتوا بالجواز، والأحكام تختلف باختلاف الزمان."

(‌‌كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:8، ص:22، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز إلا إذا نص على التعويض، ولو دفعها لأخته ولها على زوجها مهر يبلغ نصابا وهو مليء مقر، ولو طلبت لا يمتنع عن الأداء لا تجوز وإلا جاز ولو دفعها المعلم لخليفته إن كان بحيث يعمل له ‌لو ‌لم ‌يعطه وإلا لا.

(قوله: وإلا لا) أي؛ لأن المدفوع يكون بمنزلة العوض ط وفيه أن المدفوع إلى مهدي الباكورة كذلك فينبغي اعتبار النية، ونظيره ما مر في أول كتاب الزكاة فيما لو دفع إلى من قضي عليه بنفقته من أنه لا يجزيه عن الزكاة إن احتسبه من النفقة وإن احتسبه من الزكاة يجزيه."

(كتاب الزكوة، فروع في مصرف الزكاة، ج:2، ص:356، ط : سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: ومن علم الأطفال إلخ ) الذي في القنية أنه يأثم ولا يلزم منه الفسق ولم ينقل عن أحد القول به ويمكن أنه بناء على بالإصرار عليه يفسق  أفاده الشارح،قلت بل في التاترخانية عن العيون جلس معلم أو وراق في المسجد فإن كان يعلم أو يكتب بأجر يكره إلا لضرورة  وفي الخلاصة تعليم الصبيان في المسجد لا بأس به اهـ  لكن استدل في القنية بقوله عليه الصلاة والسلام جنبوا مسجدكم صبيانكم ومجانينكم."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة، ‌‌فصل في البيع، فرع يكره إعطاء سائل المسجد إلا إذا لم يتخط رقاب الناس،ج:6، ص:428، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

 "( ويبدأ من غلته بعمارته ) ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح."

(کتاب الوقف، مطلب في وقف المنقول قصدا، ج:4، ص:367، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100407

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں