بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مکروہ وقت میں نمازِ جنازہ پڑھنا


سوال

اگر جان بوجھ کر نماز جنازہ کے لئے وقتِ مکروہ کااعلان کیاجائے،  اور اعلان کردہ وقت پر سارے نمازی مع جنازہ حاضر ہوجائیں،  توایسی صورت میں اس مکروہ وقت میں جنازہ کی نمازپڑھنا درست ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہےکہ اگرمکروہ  وقت سےپہلےجنازہ حاضرہوجائے،توپھرنمازِ جنازہ کو مکروہ وقت میں اداکرناجائزنہیں ہے،اوراگرجنازہ مکروہ وقت میں حاضر ہوجائے،توپھرمکروہ وقت  میں اس پرجنازہ کی نمازادا کرناجائزہے ؛لہذاصورتِ مسئولہ میں جان بوجھ کرجنازہ کےلیےمکروہ وقت  کااعلان کرنادرست نہیں ہے، تاہم اس مکروہ  وقت میں جنازہ حاضرہونےکےبعداس پرجنازہ کی نمازپڑھی جاسکتی ہے۔

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"ثلاث ساعات لا تجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب. هكذا في فتاوى قاضي خان قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل ما دام الإنسان يقدر على النظر إلى قرص الشمس فهي في الطلوع.كذا في الخلاصة هذا إذا وجبت صلاة الجنازة وسجدة التلاوة في وقت مباح وأخرتا إلى هذا الوقت فإنه لا يجوز قطعا أما لو وجبتا في هذا الوقت وأديتا فيه جاز؛ لأنها أديت ناقصة كما وجبت. كذا في السراج الوهاج وهكذا في الكافي والتبيين لكن الأفضل في سجدة التلاوة تأخيرها وفي صلاة الجنازة التأخير مكروه."

(كتاب الصلوة، الباب الاول في مواقيت الصلوة، الفصل الثالث في بيان الاوقات التي لا تجوز فيها الصلاة وتكره فيها، ٥٢/١، ط:رشيدية)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"اگرجنازہ وقتِ ناقص میں آیاتویہ عصریومہ کی طرح ہے،اگروقتِ کامل میں آیاتونمازِ جنازہ وقت ناقص میں اداہی نہیں ہوئی۔"

(باب المواقیت، ج:5،ص:379،ط:الفاروق)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102793

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں