بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مکروہ وقت کے اعلام کے لیے مسجد سے اعلان کرنا


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ان دو فتاوی کے بارے میں جو دو مختلف موقعوں پر جامعہ ہذا سے لیے گئے ۔فتوی  طلوع آفتاب کے وقت فجر کا وقت ختم ہونے کے اعلان کے بارے میں ہے۔ پہلے فتوی کو سامنے رکھتے ہوئے علاقے کے ائمہ کرام نے اپنی اپنی مساجد سے یہ اعلانات بند کروادیے جو کئی سالوں سے ہورہے تھے۔

دوسرے فتوے میں اجازت ملنے کی وجہ سے کچھ انتشار والا مسئلہ شروع ہوگیا ہے۔ اس بارے میں آپ حضرات سے درخواست ہے کہ شریعت کی روشنی میں ہماری راہنمائی فرمائیں ۔ آیا اس سلسلہ کو جو پہلے فتوی کی روشنی میں بند کروایے گئے تھے از سر نوع دوبارہ شروع کیے جائیں یا بند ہی رکھیں جائے۔ دوسرے فتوی کی وجہ سے بہت سے افراد نے دوبارہ اعلان شروع کرنے کا مطالبہ شروع کردیا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ  پانچ نمازوں کی جماعت کے لیے مسلمانوں  کو نماز کی طرف متوجہ کرنے کی غرض سے اذان کی صورت میں مسجد سے مستقل بنیادوں پر   اعلان کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور غرض سے مسجد سے  مستقل  بنیادوں پر اعلان کرنا ثابت  اور مشروع نہیں ہے، یہاں تک کہ اذان اور اقامت کے درمیان نمازیوں کو نماز کی طرف بلانے کے لیے اعلان کرنے کے عمل( اس عمل کو فقہی اصطلاح میں تثویب کہا جاتا ہے) کوحدیث سے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے حضرت علی اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بدعت قرار دیا ہے اور متقدمین علماء نے اس کو منع فرمایا ہے، نیز زمانے کے تغیر اور لوگوں کے تساہل کے پیش نظر متاخرین علماء احناف نے اس کی گنجائش بھی دی ۔

لہذا جب  مکروہ وقت کے داخل ہونے پر مسجد سے اعلان کرنا بھی قرآن حدیث سے ثابت نہیں ہے تو    یہ عمل قابل ترک ہے اور  اس عمل کو ترویج نہیں دینی چاہیے ،معمول نہیں بنانا چاہیے اور اس کو بند ہی رہنے دینا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں اس عمل کا  بدعت کی شکل اختیار کرنے کا  قوی اندیشہ ہے جس کی طرف ابن عمر اور علی رضی اللہ عنہما کا عمل اشارہ کرتا ہے۔نیز اس عمل کو قطعا  ناجائز اور حرام بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ حرمت پر بھی کوئی صریح نص نہیں ہے اور متاخرین سے تثویب کے عمل (جو کہ اس اعلان کی طرح ایک اضافی اعلان ہے) کے متعلق گنجائش کا فتوی بھی موجود ہے ، البتہ جیسے بیان ہوچکا کہ  یہ  عمل قابل ترک ضرور ہے اور لوگوں کو وقت   اور سورج کو دیکھ کر مکروہ وقت پہچاننے کا عادی بنانا چاہیے، اعلان کرکے ان کے تساہل کو مزید  تقویت نہیں دینی چاہیے۔

نوٹ: پہلے فتوی میں نصوص سے ثابت نہ ہونے  اور بدعت کی شکل اختیار کرنے کے اندیشہ کی وجہ سے قابل ترک کہا گیا تھا اور دوسرے فتوی میں  حرمت پر صریح نص نہ ہونے اور تثویب پر متاخرین کے جواز کے فتوی  پر قیاس کرتے ہوئے اس عمل کو جائز قرار دیا گیا اور بدعت کے سد باب کے لیے لازم نہ سمجھنے کی قید لگائی گئی ہے، لہذا دونوں فتووں  میں تضاد نہیں ہے۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"قال (ولا تثويب إلا في صلاة الفجر) لما روي أن عليا - رضي الله تعالى عنه - رأى مؤذنا يثوب في العشاء فقال أخرجوا هذا المبتدع من المسجد

ولحديث مجاهد - رضي الله تعالى عنه - قال دخلت مع ابن عمر - رضي الله تعالى عنهما - مسجدا نصلي فيه الظهر فسمع المؤذن يثوب فغضب وقال قم حتى نخرج من عند هذا المبتدع فما كان التثويب على عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلا في صلاة الفجر ولأن صلاة الفجر تؤدى في حال نوم الناس ولهذا خصت بالتطويل في القراءة فخصت أيضا بالتثويب لكي لا تفوت الناس الجماعة وهذا المعنى لا يوجد في غيرها وفسره الحسن عن أبي حنيفة رحمهما الله تعالى قال يؤذن للفجر ثم يقعد بقدر ما يقرأ عشرين آية ثم يثوب ثم يقعد مثل ذلك ثم يقيم

لحديث بلال - رضي الله تعالى عنه - «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال له إذا أذنت فأمهل الناس قدر ما يفرغ الآكل من أكله والشارب من شربه والمعتصر من قضاء حاجته» وإنما استحسن التثويب لأن الدعاء إلى الصلاة في الأذان كان بهاتين الكلمتين فيستحسن التثويب بهما أيضا هذا اختيار المتقدمين وأما المتأخرون فاستحسنوا التثويب في جميع الصلوات لأن الناس قد ازداد بهم الغفلة وقلما يقومون عند سماع الأذان فيستحسن التثويب للمبالغة في الإعلام ومثل هذا يختلف باختلاف أحوال الناس."

(کتاب الصلاۃ، باب الاذان، ج نمبر: ۱ ص نمبر: ۱۳۰، دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وليس لغير الصلوات الخمس والجمعة نحو السنن والوتر والتطوعات والتراويح والعيدين أذان ولا إقامة كذا في المحيط وكذا للمنذورة وصلاة الجنازة والاستسقاء والضحى والإفزاع. هكذا في التبيين وكذا لصلاة الكسوف والخسوف. كذا في العيني شرح الكنز."

(کتاب الصلاۃ، باب الاذان، ج نمبر: ۱، ص نمبر: ۵۳، دارا لفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والتثويب حسن عند المتأخرين في كل صلاة إلا في المغرب هكذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم وهو رجوع المؤذن إلى الإعلام بالصلاة بين الأذان والإقامة.

وتثويب كل بلدة على ما تعارفوه إما بالتنحنح أو بالصلاة الصلاة أو قامت قامت؛ لأنه للمبالغة في الإعلام وإنما يحصل ذلك بما تعارفوه. كذا في الكافي."

(کتاب الصلاۃ، باب الاذان، ج نمبر: ۱، ص نمبر: ۵۳، دارا لفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(لا) يسن (لغيرها) كعيد

(قوله: لا يسن لغيرها) أي من الصلوات وإلا فيندب للمولود. وفي حاشية البحر الرملي: رأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود، والمهموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة، وعند مزدحم الجيش، وعند الحريق، قيل وعند إنزال الميت القبر قياسا على أول خروجه للدنيا، لكن رده ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغيلان: أي عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه. أقول: ولا بعد فيه عندنا. اهـ. أي لأن ما صح فيه الخبر بلا معارض فهو مذهب للمجتهد وإن لم ينص عليه، لما قدمناه في الخطبة عن الحافظ ابن عبد البر والعارف الشعراني عن كل من الأئمة الأربعة أنه قال: إذا صح الحديث فهو مذهبي، على أنه في فضائل الأعمال يجوز العمل بالحديث الضعيف كما مر أول كتاب الطهارة، هذا، وزاد ابن حجر في التحفة الأذان والإقامة خلف المسافر. قال المدني: أقول وزاد في شرعة الإسلام لمن ضل الطريق في أرض قفر: أي خالية من الناس. وقال المنلا علي في شرح المشكاة قالوا: يسن للمهموم أن يأمر غيره أن يؤذن في أذانه فإنه يزيل الهم، كذا عن علي - رضي الله عنه - ونقل الأحاديث الواردة في ذلك فراجعه. اهـ.

(قوله: كعيد) أي ووتر وجنازة وكسوف واستسقاء وتراويح وسنن رواتب؛ لأنها اتباع للفرائض والوتر وإن كان واجبا عنده لكنه يؤدى في وقت العشاء فاكتفي بأذانه لا لكون الأذان لهما على الصحيح كما ذكره الزيلعي. اهـ. بحر فافهم، لكن في التعليل قصور لاقتضائه سنية الأذان لما ليس تبعا للفرائض كالعيد ونحوه، فالمناسب التعليل بعدم وروده في السنة تأمل."

(کتاب الصلاۃ، باب الاذان ج نمبر:۱، ص نمبر:۳۸۵، ایچ ایم سعید)

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے:

"كل ‌مباح يؤدي إلى زعم الجهال سنية أمر أو وجوبه فهو مكروه كتعيين السورة للصلاة وتعيين القراءة لوقت ونحوه صرح بذلك في القنية قبيل باب صلاة المسافر."

(مسائل و فوائد شتی من الحظر  والاباحۃ ، ج نمبر: ۲ ، ص نمبر:۳۳۳،  دار المعرفۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102865

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں