بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مکروہ اوقات میں قضاء نماز پڑھنا


سوال

کیا نماز فجر ادا کرنے کے بعدسابقہ قضاء شدہ نمازِ فجر کی  قضاء پڑھ سکتے ہے؟ یعنی مکروہ وقت میں، مثلا کسی سے 12 تاریح کی نماز فجر قضا ہو جاے اور 13تاریح کی فجر نماز کے بعد 12تاریح والی نماز قضاء پڑھ سکتے ہے یعنی مکروہ وقت میں ؟

جواب

واضح رہے کہ تین اوقات میں ہر قسم کی نماز ممنوع ہے خواہ فرض نماز ہو یا نفل ،ادا نماز ہو یاقضا  اور وہ اوقاتِ ممنوعہ درج ذیل ہیں:عین طلوع کا وقت،استواءِ شمس کے وقت،عین غروب کے وقت،مذکورہ اوقات کے علاوہ دو اوقات مزید ایسے ہیں جن میں نفل نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، صبحِ صادق سے طلوعِ آفتاب (یعنی نمازِ فجر کا وقت شروع ہونے سے لے کر اشراق کا وقت ہونے تک) اور عصر کی نماز ادا کرنے کے  بعد سے غروب تک، ان اوقات میں نفل نماز پڑھنامکروہِ تحریمی ہے جب کہ فرائض کی قضا پڑھ سکتے ہیں،البتہ عصر اور فجر کی نماز کے بعد مسجد میں سب کے سامنے قضاء نہ پڑھیں، جگہ بدل کر چھپ کر پڑھ سکتے ہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"( وكره ) تحريماً...( صلاة ) مطلقاً ( ولو ) قضاء أو واجبة أو نفلا أو ( على جنازة وسجدة تلاوة وسهو ) ( مع شروق ) ( واستواء )

 ( وغروب ، إلا عصر يومه ) فلا يكره فعله لأدائه كما وجب."

(کتاب الصلاۃ ج:1،ص:370، ط: دارالفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثلاث ساعات لاتجوز فيها المكتوبة و لا صلاة الجنازة و لا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع و عند الانتصاف إلى أن تزول و عند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب، هكذا في فتاوى قاضي خان. قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل: ما دام الإنسان يقدر على النظر إلى قرص الشمس فهي في الطلوع،كذا في الخلاصة. هذا إذا وجبت صلاة الجنازة و سجدة التلاوة في وقت مباح و أخرتا إلى هذا الوقت؛ فإنه لايجوز قطعًا، أما لو وجبتا في هذا الوقت و أديتا فيه جاز؛ لأنها أديت ناقصة كما وجبت، كذا في السراج الوهاج و هكذا في الكافي و التبيين. لكن الأفضل في سجدة التلاوة تأخيرها و في صلاة الجنازة التأخير مكروه، هكذا في التبيين. و لايجوز فيها قضاء الفرائض و الواجبات الفائتة عن أوقاتها كالوتر، هكذا في المستصفى والكافي."

(کتاب الصلوۃ، الباب الاول فی مواقیت الصلوۃ، الفصل الثالث في بيان الأوقات التي لا تجوز فيها الصلاة وتكره فيها، ج:1، ص:52، ط:مکتبہ رشیدیہ)

در المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے: 
"أما في القضاء عند الناس فلايرفع حتى لايطلع أحد على تقصيره."

(کتاب الصلاۃ ،باب الوتر،ج:2،ص: 6،ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100382

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں