بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مکروہ وقت میں نماز کیوں منع ہے؟


سوال

فجر کی نماز کے 10 یا 15 منٹ بعد جو ممنوع وقت داخل ہوتا ہے اس میں نماز پڑھنا کیوں جائز نہیں؟ شرعاً یہ وقت کیوں ممنوع کہلاتا ہے؟ اس کے لیے  کیا دلائل ہیں؟

جواب

تین اوقات میں ہر قسم کی نماز ممنوع ہے خواہ فرض نماز ہو یا نفل، ادا نماز ہو یا قضا۔ ان تین اوقات میں پڑھی گئی نفل نماز کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا ہوجائے گی، اور فرض یا واجب نماز پڑھی تو اس کا اعادہ لازم ہوگا (سوائے وقتی نمازِ عصر کے کہ اگر سورج غروب ہونے سے پہلے شروع کی اور اسی دوران سورج غروب ہوگیا تو کراہت کے ساتھ ادا ہوجائے گی اور اتنی تاخیر کرنا گناہ ہے)۔

اوقات ممنوعہ درج ذیل ہیں:

1- عین طلوعِ شمس سے لے کر سورج ایک نیزہ بلند ہونے تک۔

 2- نصف  النہار یعنی استوائے شمس کے وقت۔ جب سورج دوپہر کے وقت بالکل سر پر آجائے، یہ بہت ہی مختصر وقت ہے، تاہم  فقہاءِ کرام فرماتے ہیں کہ احتیاطاً اس سے پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد نماز نہ پڑھی جائے۔

 3- عصر کے بعد سورج زرد پڑ جانے کے بعد سے لے کر سورج غروب ہو جانے تک۔ (سوائے اس دن کی عصر کی نماز)

مذکورہ اوقات کے علاوہ دو اوقات مزید ایسے ہیں جن میں نفل نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے:

(1) صبح  صادق سے طلوع آفتاب (یعنی نمازِ فجر کا وقت شروع ہونے سے لے کر اشراق کا وقت ہونے) تک۔

(2) عصر کی نماز ادا کرنے کے  بعد سے غروب تک۔ ان اوقات میں بھی نفل نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے جب کہ فرائض کی قضا پڑھ سکتے ہیں۔ (عمدۃ الفقہ،ص؛57،ط:زوار اکیڈمی)

ان اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت کی اصل وجہ تو یہ ہے کہ احادیثِ مبارکہ میں ان اوقات میں نماز کی ادائیگی سے منع کیا گیا ہے، اور نفل کے لیے اضافی دو ممنوعہ اوقات کا ذکر بھی احادیثِ مبارکہ میں ہے، لہٰذا جب حدیث شریف میں ان اوقات میں نماز کی ممانعت ہے تو مسلمان کی شان یہی ہے کہ وہ ان اوقات میں نماز ادا نہ کرے، خواہ اس کی کوئی اور وجہ ہو یا نہ ہو، یا حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے۔

تاہم مقاصدِ شریعت سے بحث کرنے والے محققین علماءِ کرام نے اَحکامِ شرع کی حکمتیں اور مصالح اور عقلی توجیہات بھی پیش کی ہیں، جن میں سے بعض احادیثِ مبارکہ میں صراحتاً مذکور ہیں، اور بعض کی طرف نصوص میں اشارہ موجود ہے، اور کچھ عقلِ سلیم کی روشنی میں سمجھ آتی ہیں، لیکن ایسی حکمتوں کی روشنی میں شریعت کے ثابت اَحکام میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔

مذکورہ ممنوعہ اوقاتِ نماز کی وجہ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں یہ ہے کہ مشرکین ومجوس ان اوقات میں آفتاب کی پرستش کرتے تھے اور اس کو سجدہ کرتے تھے؛ چناں چہ ان کی مشابہت سے بچنے کے لیے اس سے منع کیا گیا۔ (حجۃ اللہ البالغہ 2/21، کتب خانہ رشیدیہ دہلی)

لیکن واضح رہے کہ اس حکمت کا اعتبار  تشریعِ اَحکام کے وقت کیا گیا، لہٰذا اسے دیکھ کر اِس دور میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آج سورج کی پرستش کرنے والے مشرکین فلاں فلاں وقت بھی عبادت کرتے ہیں یا مذکورہ اوقات میں نہیں کرتے تو اب ان اوقات میں نماز کی اجازت دی جائے، اور جن اوقات میں کرتے ہوں ان میں منع کردیا جائے، اب شرعی منصوص اَحکام میں تبدیلی کا کسی کو حق نہیں ہے، خواہ وہ ایسی حکمت کی روشنی میں ہو جو منصوص ہو، کیوں کہ شریعت کے اَحکام مقرر ہوجانے کے بعد کسی کو ان میں تبدیلی کا حق نہیں ہے۔

سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط (2/ 304):

 

عن أبي عبد الله الصنابحي، أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "إن الشمس تطلع بين قرني الشيطان- أو قال: يطلع معها قرنا الشيطان- فإذا ارتفعت فارقها، فإذا كانت في وسط السماء قارنها، [فإذا دلكت - أو قال: زالت - فارقها، فإذا دنت للغروب قارنها] فإذا غربت فارقها، فلا تصلوا هذه الساعات الثلاث"

موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان ت حسين أسد (2/ 354):

 

عن أبي هريرة: أن رجلا أتى رسول الله- صلى الله عليه وسلم - فقال: يا رسول الله، أي ساعات الليل والنهار تأمرني أن لا أصلي فيها؟. فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "إذا صليت الصبح فأقصر عن الصلاة حتى ترتفع الشمس فإنها تطلع بين قرني الشيطان، ثم الصلاة مشهودة محضورة متقبلة حتى ينتصف النهار، فإذا انتصف النهار فأقصر عن الصلاة حتى تميل الشمس، فإن حينئذ تسجر جهنم، وشدة الحر من فيح جهنم. فإذا زالت الشمس، فالصلاة محضورة مشهودة متقبلة حتى تصلى العصر، فإذا صليت العصر فأقصر عن الصلاة حتى تغيب الشمس فإنها تغيب بين قرني الشيطان، ثم الصلاة محضورة مشهودة متقبلة حتى تصلي الصبح.

مسند أحمد ت شاكر (5/ 263):

 

عن ابنِ عمر قال: كان رسول الله -صلي الله عليه وسلم - يقول: "لا يَتَحرى أحدكم الصلاةَ طلوع الشمس ولا غروبَها، فإنها تَطلع بين قَرْني الشيطان".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 370، 374):

"(وكره) تحريماً، وكل ما لايجوز مكروه (صلاة) مطلقاً (ولو) قضاءً أو واجبةً أو نفلاً أو (على جنازة وسجدة تلاوة وسهو) لا شكر قنية (مع شروق) ... (وسجدة تلاوة، وصلاة جنازة تليت) الآية (في كامل وحضرت) الجنازة (قبل) لوجوبه كاملا فلا يتأدى ناقصا، فلو وجبتا فيها لم يكره فعلهما: أي تحريما. وفي التحفة: الأفضل أن لاتؤخر الجنازة".

الفتاوى الهندية (1/ 52):

"ثلاث ساعات لاتجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب. هكذا في فتاوى قاضي خان قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل ما دام الإنسان يقدر على النظر إلى قرص الشمس فهي في الطلوع. كذا في الخلاصة. هذا إذا وجبت صلاة الجنازة وسجدة التلاوة في وقت مباح وأخرتا إلى هذا الوقت فإنه لا يجوز قطعا أما لو وجبتا في هذا الوقت وأديتا فيه جاز؛ لأنها أديت ناقصة كما وجبت. كذا في السراج الوهاج وهكذا في الكافي والتبيين لكن الأفضل في سجدة التلاوة تأخيرها وفي صلاة الجنازة التأخير مكروه. هكذا في التبيين ولايجوز فيها قضاء الفرائض والواجبات الفائتة عن أوقاتها كالوتر. هكذا في المستصفى والكافي".

الفتاوى الهندية (1/ 52):

"تسعة أوقات يكره فيها النوافل وما في معناها لا الفرائض. هكذا في النهاية والكفاية فيجوز فيها قضاء الفائتة وصلاة الجنازة وسجدة التلاوة. كذا في فتاوى قاضي خان.
منها ما بعد طلوع الفجر قبل صلاة الفجر.... ومنها ما بعد صلاة الفجر قبل طلوع الشمس. هكذا في النهاية والكفاية۔۔۔ ومنها ما بعد صلاة العصر قبل التغير. هكذا في النهاية والكفاية".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 375):

"(لا) يكره (قضاء فائتة و) لو وترا أو (سجدة تلاوة وصلاة جنازة وكذا) الحكم من كراهة نفل وواجب لغيره لا فرض وواجب لعينه (بعد طلوع فجر سوى سنته) لشغل الوقت به، (قوله: أو سجدة تلاوة) لوجوبها بإيجابه تعالى لا بفعل العبد كما علمته فلم تكن في معنى النفل".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200634

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں