بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

منکوحۃ الغیر سے نکاح متعہ کرنے کا حکم


سوال

میری ایک کزن کی دس سال پہلے شادی ہو گئ تھی،اس کے شوہر نے اس کو کسی گھریلو وجہ سے بچوں سمیت گھر سے نکال دیا ہے،ابھی وہ اس کو طلاق نہیں دے رہا،میری کزن مجھ سے فون پر باتیں کرتی ہے،اور ہم ایک دوسرے کو ملنا بھی چاہتے ہیں،اس نے 3 مہینے سے مباشرت نہیں کی،ہم نا محرم ہیں اس لیے ڈرتے ہوۓ  ملتے نہیں کہ ملنا بھی گناہ ہے اور بات کرنا بھی ،تو کیا کوئی ایسی صورت حال ہے کہ ہم نکاح متعہ کر لیں ؟اور محرم بن کر بات بھی کر لیں اور کوئی گناہ بھی نہ ہو۔

جواب

واضح رہےکہ جب تک پہلا شوہراپنی بیوی کو طلاق یا خلع نہ دے دے یا اس کا انتقال نہ ہوجائے اور اس کی عدت ختم نہ ہوجائے تب تک دوسرا نکاح نہیں ہوسکتا، اس حالت میں عورت کا دوسرے مردسےتعلق رکھنا ناجائز اور حرام ہوگا،اور اس طرح کا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا،نیز نکاحِ متعہ خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں حرام قرار دے دیا تھا، اس بارے میں"مسلم شریف"  کی ایک روایت وضاحت کے لیے کافی ہے:

"عن  الربيع بن سبرة الجهني، أن أباه، حدثه، أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «يا أيها الناس، إني قد كنت أذنت لكم في الاستمتاع من النساء، وإن الله قد حرم ذلك إلى يوم القيامة، فمن كان عنده منهن شيء فليخل سبيله، ولاتأخذوا مما آتيتموهن شيئاً."

(صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب نكاح المتعة،  1025/2،ط: دار إحياء التراث العربي بيروت)

ترجمہ:حضرت سبرہ بن معبد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (ایک موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! میں نے تم کو عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی اور (اب) اللہ نے اس کو  قیامت کے دن تک کے لیے حرام کر دیا ہے؛ لہٰذا جس کے پاس متعہ کرنے والیوں میں سے کوئی عورت ہو، وہ اس کو چھوڑ دے اور جو کچھ مال ان کو دیا ہو، اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں  سائل کا اپنی کزن سے جو کہ دوسرے شخص کی  منکوحہ ہے،اس سے کسی قسم کا نکاح کرنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے،سائل کو چاہیے کہ اپنی کزن جوکہ اس کےلیے نامحرم ہے،اس سے فون پر  بات  کرنے  سے بھی اجتناب کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا. قال: فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة، ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة لأنه زنى كما في القنية وغيرها ."

(کتاب النکاح،مطلب في النكاح الفاسد،132/3، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"ولايكلم الأجنبية إلا عجوزاً عطست أو سلّمت فيشمتها و يرد السلام عليها، وإلا لا۔ انتهى.

(قوله: وإلا لا) أي وإلا تكن عجوزاً بل شابةً لا يشمّتها، ولا يرد السلام بلسانه۔ قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلّم الرجل أولاً، وإذا سلّمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزاً رد الرجل عليها السلام بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابةً رد عليها في نفسه، وكذا الرجل إذا سلّم على امرأة أجنبية، فالجواب فيه على العكس."

(کتاب الحظر والاباحۃ،باب النظر واللمس،369/6،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100826

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں