بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مکہ سے طائف جانے کے بعد بغیر احرام باندھے مکہ میں دوبارہ داخل ہو کر مسجد عائشہ سے احرام باندھنے کا حکم


سوال

 میرے گھر والے عمرے پر گۓ تھے تو وہاں وہ مکہ سے زیارت کرنے طائف گئے اور واپسی پر احرام نہیں باندھا اور میقات سے بغیر احرام کے گزر گئے اور ہوٹل آگئے،بعد میں مسجد عائشہ سے انہوں نے عمرہ کیا، پھر چند دنوں بعد وہ واپس اپنے ملک آگئے تھے اور ابھی وہ دوبارہ مکہ گئے ہیں، تو آیا انہیں دم دینا پڑے گا یادم ساقط ہو جاے گا؟ براۓ مہربانی راہ نمائی فرمائیں! نوازش ہوگی۔

جواب

واضح رہے کہ جو افراد مکہ مکرمہ میں مقیم ہیں، یا میقات سے  باہر کے رہائشی ہیں وہ عمرہ کرنے کے بعد ،  اگر میقات سے تجاوز کرجائیں، جیسے مدینہ منورہ یا طائف، ریاض وغیرہ چلے جائیں تو  واپسی پر کسی میقات سے عمرہ کا احرام باندھ کر آنا  ضروری ہے،  پس صورتِ مسئولہ میں طائف سے واپسی پر میقات قرن المنازل   سے احرام کی نیت کرنا سائل کے گھر والوں  کے لیے ضروری تھا، پس اگر عمرہ کی نیت کے بغیر مذکورہ افراد حدود حرم میں داخل ہوگئے تھے تو اب ان پر  دم ادا کرنا ضروری ہوگا، دم سے بچنے کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اسی سفر میں  مکہ سے کسی قریبی میقات ( جو کہ طائف کے قریب ہے) جا کر عمرہ کی نیت سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کرلیتے۔(طائف سے آنے والوں کی میقات "قرن المنازل" ہے، آج کل طائف سے مکہ مکرمہ  آنے کے دو راستے ہیں، ایک راستے میں "السیل الکبیر یا السیل الصغیر"  اور دوسرے راستے میں '' ہدا'' نامی علاقہ میقات کہلاتا ہے)

ملحوظ رہے کہ مسجدِ عائشہ میقات نہیں ’’حل‘‘ ہے، حدودِ حرم میں رہنے والے افراد وہاں سے عمرہ کی نیت کر سکتے ہیں، تاہم وہ افراد جو میقات سے تجاوز کر جائیں تو ان کے لیے میقات سے احرام کی نیت کرنا ضروری ہے، مسجدِ عائشہ سے نیت کرنا درست نہیں، لہذا سائل کے گھر والے   چوں کہ عمرہ کر کے اپنے گھر واپس آچکے ہیں، لہذا ان میں سے ہر ایک پر ایک ایک دم ( بکرا یا بکری یا دنبہ وغیرہ )  ادا کرنا لازم ہوچکا ہے،دم کی ادائیگی حدودِ حرم میں کرنا شرعاً ضروری ہے، چاہے خود حدود حرم میں جاکر دم ادا کردے  یا کسی واقف کار کو  دم کی رقم دے کر اس کے ذریعہ دم ادا کروا دے ،دونوں صورتیں درست ہیں۔

الدر المختار میں ہے:

"(وحرم تأخیر الإحرام عنها) کلّها (لمن) أي لآفاقي (قصد دخول مکة) یعني الحرم (ولو لحاجة) غیر الحج، أمّا لو قصد موضعاً من الحلّ کخلیص وجدة، حلّ له مجاوزته بلا إحرام.

وفي رد المحتار:

(قوله: أي لآفاقي) أي ومن ألحق به کالحرمي والحلي إذا خرجا إلی المیقات کما یأتي، فتقییده بالآفاقي للاحتراز عما لو بقیا في مکانهما، فلایحرم، کما یأتي".

( کتاب الحج، مطلب في المواقیت:ج:2، ص:477، ط: سعید)

البحر العمیق میں ہے :

"وإذا جازو المحرم أحد المواقیت علی الوجه الذي ذکرنا ودخل مکة بغیر إحرام فعلیه حجة أو عمرة قضاء ما علیه ودم لترك الوقت."

(الباب السادس فى المواقيت ، مجاوزة الميقات بغير احرام ، ص: 622،ط: المكتبة المكية )

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو جاوز الميقات يريد دخول مكة أو الحرم من غير إحرام يلزمه إما حجة وإما عمرة؛ لأن مجاوزة الميقات على قصد دخول مكة أو الحرم بدون الإحرام لما كان حراما كانت المجاوزة التزاما للإحرام دلالة، كأنه قال: لله تعالى علي إحرام، ولو قال ذلك يلزمه حجة أو عمرة، كذا إذا فعل ما يدل على الالتزام كمن شرع في صلاة التطوع ثم أفسدها يلزمه قضاء ركعتين، كما إذا قال: لله تعالى علي أن أصلي ركعتين، فإن أحرم بالحج أو بالعمرة قضاء لما عليه من ذلك لمجاوزته الميقات، ولم يرجع إلى الميقات، فعليه دم؛ لأنه جنى على الميقات لمجاوزته إياه من غير إحرام، ولم يتداركه فيلزمه الدم جبرا، فإن أقام بمكة حتى تحولت السنة ثم أحرم يريد قضاء ما وجب عليه بدخوله مكة بغير إحرام، أجزأه في ذلك ميقات أهل مكة في الحج بالحرم، وفي العمرة بالحل؛ لأنه لما أقام بمكة صار في حكم أهل مكة فيجزئه إحرامه من ميقاتهم، فإن كان حين دخل مكة عاد في تلك السنة إلى الميقات فأحرم بحجة عليه من حجة الإسلام أو حجة نذر أو عمرة نذر، سقط ما وجب عليه لدخوله مكة بغير إحرام استحسانا، والقياس أن لا يسقط إلا أن ينوي ما وجب عليه لدخول مكة، وهو قول زفر، ولا خلاف في أنه إذا تحولت السنة ثم عاد إلى الميقات ثم أحرم بحجة الإسلام، أنه لا يجزئه عما لزمه إلا بتعيين النية.

وجه القياس: أنه قد وجب عليه حجة أوعمرة بسبب المجاوزة، فلا يسقط عنه بواجب آخر كما لو نذر بحجة أنه لا تسقط عنه بحجة الإسلام.

وكذا لو فعل ذلك بعد ما تحولت السنة، وجه الاستحسان أن لزوم الحجة أو العمرة ثبت تعظيما للبقعة، والواجب عليه تعظيمها بمطلق الإحرام لا بإحرام على حدة، بدليل أنه يجوز دخولها ابتداء بإحرام حجة الإسلام، فإنه لو أحرم من الميقات ابتداء بحجة الإسلام أجزأه ذلك عن حجة الإسلام، وعن حرمة الميقات، وصار كمن دخل المسجد وأدى فرض الوقت، قام ذلك مقام تحية المسجد."

( كتاب الحج ، فصل فى بيان مكان الإحرام ، 2/ 165، ط : رشیدیه)

فتاوٰی قاضی خان میں ہے:

"(فصل فيما يوجب الكفارة والصدقة على الحاج) منها مجاوزة الميقات بغير إحرام الآفاقي إذا جاوز الميقات بغير إحرام حتى رجع إلى الميقات ولبى جاز حجه ويسقط عنه الدم الذي كان واجباً عليه بمجاوزة الميقات بغير إحرام عندنا وإن لم يرجع إلى الميقات حتى أحرم بحجة أو بعمرة ثم رجع إلى الميقات ولبى إن كان ذلك قبل أن يطوف بالبيت جاز حجه ويسقط عنه دم المجاورة وإن رجع إلى الميقات ولم يلب عند الميقات وحج بذلك الإحرام جاز حجه ولا يسقط عنه دم المجاوزة في قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى وقال صاحباه رحمهما الله تعالى جاز حجه ويسقط عنه دم المجاوزة إذا رجع إلى الميقات محرماً لبى عند الميقات أو لم يلب ولو جاوز الآفاق الميقات بغير إحرام ثم أحرم وطاف بالبيت شوطاً أو شوطين لا يسقط عنه الدم الذي كان واجباً بالمجاوزة رجع إلى الميقات أو لم يرجع ولو جاوز الآفاقي الميقات بغير إحرام كان عليه حجة أو عمرة والمكي ومن كان منزله داخل الميقات لا يلزمه بدخول مكة بغير إحرام شيء ولو دخل الميقات لا يلزمه بدخول مكة بغير إحرام شيء ولو دخل الآفاقي مكة بغير إحرام ثم رجع إلى الميقات في تلك السنة وأحرم بحجة الإسلام سقط عنه ما كان واجباً بالمجاوزة ودخول مكة بغير إحرام عندنا وإن لم يخرج من مكة حتى مضت السنة ثم خرج إلى الميقات في السنة الثانية وأحرم بحجة الإسلام وحج يجزيه حجة الإسلام ولا يسقط عنه الدم الذي كان واجباً عليه في العام الأول."

(کتاب الحج،فصل فيما يوجب الكفارة والصدقة على الحاج: ج:1، ص:141، ط: قدیم نسخه)

غنیۃ الناسک فی بغیۃ المناسک میں ہے:

"آفاقی مسلم مكلف أراد دخول مكة أو الحرم ۔۔وجاوز  آخر مواقيته غير محرم  ثم أحرم  أو لم يحرم أثم ولزمه دم وعليه العود إلى ميقاته الذي جاوزه أو إلى غيره أقرب أو أبعد،وإلى ميقاته الذي جاوزه أفضل۔۔۔فإن لم يحرم وعاد بعد تحول السنة أو قبله ماحرم بما لزمه بالمجاورة من الميقات سقط الإثم والدم بالاتفاق، وكذا إن عاد من عامه ذلك فأحرم بغيره سقط عندنا."

(فصل فى مجاوزة الآفاقى وقته من غير إحرامه ،ص:105 ،ط: المصباح ۔ لاهور )

عمدۃ الفقہ میں ہے :

"پس اگر وہ اسی سال کسی میقات پر لوٹ آیا اور حج فرض قضاء یا ادا یا حج ِنذر یا عمرهٔ نذر یا عمرۂ قضاء یا عمرۂ سنت یا عمرہ مستحب کا احرام باندھ لیا تو بلا احرام داخل ہونے کی وجہ سے جو غیر متعین حج یا عمرہ اس پر واجب ہواتھا اس سے ساقط ہو جائے گا اور اسی طرح بلااحرام میقات سے گزرجانے کا جودم (قربانی ) اس پر واجب ہواتھا وہ میقات پر احرام باندھ کر تلبیہ کہنے سے اس کے ذمہ سے اتر جائے گا اگرچہ احرام میں اس نے اس خاص چیز کی نیت نہ کی ہو جو اس پر لازم ہوئی تھی ۔۔۔اور اگر بلااحرام میقات سے گزرجانے کے بعد احرام باندھ لیا،لیکن میقات پر واپس نہیں آیا  تو اس سے دم ساقط نہیں ہوگا ۔"

(کتاب الحج، ج: 4 ، ص: 102 ، ط: زوار اکیڈمی)

احسن الفتاوی میں   ہے:

"حج یا عمرہ میں بدون احرام تجاوز کی وجہ سے واجب کی ادائیگی کی نیت ضروری نہیں بلکہ حج یا عمرہ نفل یا نذر یا حج فرض جو نیت بھی کرے گا اس سے بدون احرام تجاوز کا واجب ادا ہوجائے گا ۔"


(کتاب الحج ، ج:4،ص: 527، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم 


فتوی نمبر : 144402101393

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں