بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے ہوٹلوں کی مرغی استعمال کرنا


سوال

مكہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں البیک اور الطازج کے نام سے ریسٹورنٹ ہیں،کیا آپ ان کے بارے میں تحقیق کر کے بتا سکتے ہیں کہ وہ کھانا حلال ہے یا حرام؟ سننے میں آیا ہے کہ وہ مشینی ذبیحہ استعمال کرتے ہیں،لیکن کنفرم نہیں ہے۔ کوئی ایسی ویب سائٹ ہے  جہاں سے ہم حلال اور حرام کی معلومات لے سکیں؟جب تک کنفرم حرام کا نہ پتا ہو تو وہ چیز کھا سکتے ہیں؟

جواب

مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں مختلف  ہوٹلوں کے کھانے کے حوالہ سے  حکم یہ ہے کہ  اگر وہ شرعی طریقہ پر ذبح کی گئی مرغی اور گوشت استعمال کرتےہیں یعنی ہاتھ سے ذبح شدہ مرغی اور جانور (بکری وغیرہ )کا گوشت فروخت کرتے ہیں   تو اس کا کھانا حلال ہے اور اگر شرعی طریقہ پر ذبح کی گئی مرغی استعمال نہیں کرتے ، بلکہ مشینی ذبیحہ استعمال کرتے ہیں ،تو اس کا کھانادرست نہیں ہے ۔

ذبیحہ کے متعلق سب سے بہتر یہی ہے کہ   جس ہوٹل سے کھانا لے رہے ہیں ان سے معلوم کرلیں کہ وہ کونسا ذبیحہ استعمال کرتے ہیں ؟اور پھر اس کے مطابق عمل کرلیں ۔نیز جب تک کسی ہوٹل کے بارے میں  یقینی بات معلوم نہ ہوجائے تو  وہاں کی مرغی اور گوشت کھانے سے احتیاط کریں ۔

حلال و حرام اشیاء کے بارے میں جاننے کے لیے نیز اسی طرح گوشت کے حلال و حرام کے جاننے کے لیے معتبر ادارہSanha([email protected]) سے معلومات لی جاسکتی ہیں۔

حدیث شریف میں ہے :

 ’’الحلال بیّن والحرام بیّن وبینهما مشتبهاتٌ لایعلمهمنّ کثیرٌ من الناس، فمن اتقی الشبهات استبرأ لدینه  وعرضه  ومن وقع في الشبها ت وقع في الحرام۔۔۔ الخ‘‘

(مشکاۃ المصابیح ،کتاب البیوع، باب الکسب وطلب الحلال، الفصل الأول،1 / 241، ط: قدیمی کراچی)

وفي الفتاوى الهندية:

'' رجل اشترى من التاجر شيئاً هل يلزمه السؤال أنه حلال أم حرام؟ قالوا: ينظر إن كان في بلد وزمان كان الغالب فيه هو الحلال في أسواقهم ليس على المشتري أن يسأل أنه حلال أم حرام، ويبنى الحكم على الظاهر، وإن كان الغالب هو الحرام أو كان البائع رجلاً يبيع الحلال والحرام يحتاط ويسأل أنه حلال أم حرام''.

 (3/ 210، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100814

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں