میں ایک ڈاکٹر ہوں اور ایک جگہ کلینک میں بیٹھتا ہوں وہاں جتنے ڈاکٹر ہیں ان کے ہاں طریقہ یہ ہے کہ جب وہ مریضوں کو معمول کے ٹیسٹ لکھ کر دیتے ہیں اور مریض ایک خاص لیبارٹری سے ٹیسٹ کراتے ہیں تولیبارٹری والے ان ڈاکٹروں کو کچھ رقم دیتے ہیں ،میرے ساتھ بھی یہ صورت حال پیش آتی ہے ،اس سلسلے میں ہمارا لیبارٹری والوں کے ساتھ کوئی مستقل معاہدہ نہیں ہے،ہماراکام بس ان کی لیبارٹری کے لیے مریضوں کو ٹیسٹ کرانے کے لیے بھیجنا ہے۔جبکہ وہ ان مریضوں سے اضافی پیسے بھی وصول کر تے ہیں ،کیا ہمارے لیے اس طرح ان سے پیسے وصول کرنا جائز ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں ڈاکٹر اپنی اجرت فیس کی شکل میں وصول کرلیتےہیں اس لیے مذکورہ رقم لیناڈاکٹروں کے لیے جائز نہیں ، کیوں کہ اس کا بوجھ مریض پر ہی پڑتا ہے، ڈاکٹر کا اخلاقاًفریضہ بنتا ہے کہ مریض کے لیے ایسی ٹیسٹ اور لیبارٹری کا انتخاب کرے جس میں مریض کا ہر اعتبار سے فائدہ ہو اور جس کی قیمت مناسب اور افادیت معیاری ہو، اپنے کمیشن کی خاطر غیر معیاری اور نا قابلِ اعتماد لیبارٹری بھیج دینا یا مریض پر بوجھ ڈالنا یا اسے تکلیف دینا شرعاً و اخلاقاً ناجائز ہے۔
فتاوی شامی میں ہے :
"(قوله: إن دلني إلخ) عبارة الأشباه إن دللتني. وفي البزازية والولوالجية: رجل ضل له شيء فقال: من دلني على كذا فهو على وجهين: إن قال ذلك على سبيل العموم بأن قال: من دلني فالإجارة باطلة؛ لأن الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر، وإن قال على سبيل الخصوص بأن قال لرجل بعينه: إن دللتني على كذا فلك كذا إن مشى له فدله فله أجر المثل للمشي لأجله؛ لأن ذلك عمل يستحق بعقد الإجارة إلا أنه غير مقدر بقدر فيجب أجر المثل، وإن دله بغير مشي فهو والأول سواء".
(كتاب الإجارة ، باب فسخ الإجارة ج: 6 ص: 95 ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501100312
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن