1۔ ہمارے علاقے میں میت کے تیسرے دن ختم قرآن ہوتا ہے، جس میں طلبہ چھوٹے حافظ بچے بلائے جاتے ہیں اور اُن سے یہ ختم پڑھوایا جاتا ہے، اس کے بعد اہل میت ان کو پیسے دیتے ہیں، اگر وہ لینے سے منع کریں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ خیرات و صدقہ ہے، لے لو! جس پر دوسرے بیٹھے ہوئے لوگ بھی تائید کرتے ہیں، جس کی وجہ سے آدمی کو مجبوراً لینا پڑتا ہے، پھر کھانا کھلایا جاتا ہے، اس کے بعد چہلم اور سالگرہ کے وقت پھر ختم کراتے ہیں اور یہ پیسے اور کھانا اگر نہ ہو تو بمشکل چند افراد آجاتے ہیں اور ختم کے دوران طلبہ پارے میں عام طور یاا کثر تقطیع(یعنی ایک دو صفحے چھوڑ کر پڑھنا) بھی کرتے ہیں، تاکہ پارہ جلدی ختم ہوجا ئے، اب تفصیل کے بعد میرا مقصود یہ ہے کہ اس سوئم، چہلم اور سالگرہ کے دن ختم کرنا کیسا ہے؟ اور اس میں پیسے دینا اور لینا کیسا ہے؟ اور کھانا کھلانا کیسا ہے؟ اگر یہ ختم ان دنوں سے ہٹا کر دوسرے دنوں میں کروایا جائے تو کیسا ہے؟
2۔ہمارے یہاں میت دفنانے کے بعد لوگ گول دائرہ بنا کر بیٹھتے ہیں، پھر چند علماء جمع ہوتے ہیں اور ایک جگہ بیٹھتے ہیں، اہل میت اچھی خا صی ر قم لاکر ان کو دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارے اس قریب کی جانب سے بطور اسقاط وفد یہ تقسیم کریں، پھر اس رقم سے تمام نمازوں اور دوسری عبادتوں کا فدیہ پورا ادانہیں ہوسکتا تو باہم مشورہ سے پہلے نمازوں کا حساب وقتِ بلوغ سے لے کر آخری عمر تک زندگی کی ساری نمازیں، روزے، نذور اور قسم وغیرہ کا علیحدہ علیحدہ حساب کر کے ایک ایک عبادت کا فدیہ ادا کراتے ہیں، جس کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ ایک آدمی یہ پیسے لے کر ایک ایک آدمی کو دیتا اور یہ کہتا ہے کہ یہ فلاں عبادت کا فدیہ ہے، یہ قبول کرو! وہ قبول کر کے واپس دیتے ہیں، پھر وہ دوسرے کو دیتے ہیں، اس طرح سے بالترتیب ساری عبادات کا فدیہ ادا کراتے ہیں، آخر میں یہ رقم اہل میت اُن علماء کو دیتے ہیں یا دائرے میں موجود فقراء کو کچھ کچھ دیتے ہیں، شروع میں اعلان ہوتا ہے کہ مالدار نہ بیٹھے، پھر بھی بعض بیٹھتے ہیں، اس طریقے سے اسقاط کا کیا حکم ہے ؟ اور اسقاط کی ابتداء کس بنیاد پر اور کب سے شروع ہوئی؟
1۔قران کریم کی تلاوت عظیم الشان عبادت ہے، صرف اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے کرنی چاہیے، اس پر جو کچھ ثواب ملے گا وہ جس کو دل چاہے پہنچایا جا سکتا ہے، اس کی تلاوت سے کسی مالی منفعت کی نیت نہیں ہونی چاہیے،جیسا کہ آج کل بعض جگہ قران خوانی کرا کے ثواب پہنچانے کا جو طریقہ رائج ہو گیا ہے کہ مکان پر بلا کر یا مسجد میں جمع کر کے ثواب پہنچایا جاتا ہے اور پڑھنے والوں کو اپنے اپنے رواج کے مطابق کچھ دیا جاتا ہے اور پڑھنے والے بھی اسی لالچ میں جاتے ہیں اور اسی لالچ میں قرآن کریم کو جلدی جلدی غلط یاچھوڑ چھوڑ کر پڑھتے ہیں، جو کہ ناجائز و حرام ہے اور اس صورت میں تو اس کا ثواب پڑھنے والے کو بھی نہیں ملے گا(چہ جائیکہ میت کو اس کا ثواب پہنچایا جائے)، بل کہ مال کی لالچ میں پڑھنے اور قرآن کریم کو غلط پڑھنے کی وجہ سے عذاب ہوگاا ور اگر کچھ نہ دیا جاتا تو خوش نہیں ہوتے اور اگر پہلے سے معلوم ہو جائے کہ کچھ نہیں ملے گا، تو عذر کردیتے ہیں، لہٰذا قرآن کریم کی تلاوت پر پیسے لینا اور دینا دونوں ناجائز اور بدعت ہے اور جو کوئی ایسا کرے گا وہ گناہ گار ہوگا۔
نیز اہلِ میت کا لوگوں کو کھانا کھلانا مکروہ ہے اور قرآن خوانی کےلیے کسی دن( مثلاً انتقال کے تیسرے دن، پھر ساتویں، دسویں، چالیسویں، سالانہ وغیرہ،جیسا کہ عوام میں برسی، عرس اور چہلم وغیرہ کے نام سے معروف ہے)کی تخصیص کرنا بدعت ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، ان کے علاوہ کسی بھی دن اتفاقی طور پر قرآن پڑھ کر میت کو ایصالِ ثواب کریں تو یہ جائز ہے۔
2۔ا گر میت نے اپنے ذمہ میں باقی نمازوں وغیرہ کے فدیہ کی ادائیگی کی وصیت کی ہے اور اتنا مال بھی چھوڑا ہے، تو ورثاء کے ذمہ ثلث مال سے وصیت نافذ کرنا ضروری ہے، لیکن اگر وصیت نہیں کی تو وہ وصیت نہ کرنے کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوگا، تاہم میت کےنمازوں وغیرہ کے فدیہ کی ادائیگی کےلیے بعض جگہ رواج یہ ہے کہ یہ حیلہ اختیار کرتے ہیں کہ تملیک صرف حیلۃً ہوتی ہے، نہ کہ حقیقۃً یعنی بار بار مسکین کو فدیہ دیتے ہیں، اس سے واپس لیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ فدیہ ادا ہو گیا، یہ بہت بڑی غلطی ہے، کیوں کہ اس صورت میں نہ تو دینے والی کی نیت دینے کی ہوتی ہے اور نہ لینے والی کی نیت یہ ہوتی ہے کہ میں اس کا مالک ہو گیا، بل کہ واپس کرنا ضروری ہوتا ہے، لہٰذ ا ایسے حیلے کو اختیار کرنا اور اسے باعثِ ثواب سمجھنا بدعت ہے۔
نیز واضح رہے کہ یہ مذکورہ عمل جس کو “ حیلۂ اسقاط‘‘ بھی کہتے ہیں، بعض فقہاء نے ایسے شخص کے لیے تجویز فرمایا تھا جس کی کچھ نماز یں اور روزے وغیرہ اتفاقی طور پر فوت ہوگئے ہوں، پھر قضا کرنے کا موقع نہ ملا اور موت کے وقت فدیہ کی وصیت تو کی ہو ، لیکن مرحوم نے اتنا ترکہ نہ چھوڑا ہوجس کے ایک تہائی سے ان کی تمام فوت شدہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کیا جاسکے۔ ایسی صورت میں اگر ورثاء اصحاب استطاعت ہوں تو اپنے مال سے مرحوم کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کردیں، اور اگر ورثاء کے پاس بھی گنجائش نہ ہو تو فقہا ء نے حیلے کی گنجائش ذکر کی ہے، اور اس کی جائز صورت یہ ہے کہ: ورثاء فدیہ کی نیت سے کچھ رقم کسی غریب و نادار مستحق زکاۃ کو دے کر اس کو اس رقم کا اس طرح مالک بنادیں کہ اگر وہ مستحق رقم واپس کرنے کے بجائے خود استعمال کرلے تو ورثاء کو کوئی اعتراض نہ ہو اور وہ مستحق شخص یہ سمجھتا ہو کہ اگر میں یہ رقم مرحوم کے ورثاء کو واپس نہ کروں تو انہیں واپس لینے کا اختیار نہیں ہے، پھر وہ مستحق کسی قسم کے جبر اور دباؤ کے بغیر اپنی خوشی سے وہ رقم ورثاء کو واپس کردے اور پھر ورثاء اسی مستحق کو یا کسی اور مستحق کو اسی طرح مذکورہ طریقے کے مطابق وہ رقم دے دیں اور وہ بھی اپنی خوش دلی سے انہیں واپس کردے، اس طرح باربار ورثاء یہ رقم کسی مستحق کو دیتے رہیں اور وہ اپنی خوشی و مرضی سے واپس کرتا رہے، یہاں تک کہ مرحو م کی قضا شدہ نمازوں کے فدیہ کی مقدار ادا ہوجائے تو اس طرح فدیہ ادا ہوجائے گا اور اب وہ رقم سب سے آخر میں جس نادار ومستحق شخص کو ملے گی، وہی اس رقم کا مالک ہوگا اور اسے ہر طرح اس رقم کو خرچ کرنے کا اختیار ہوگا، نیز آخر میں ورثاء کا رقم کو آپس میں تقسیم کرنا یا کسی غنی ومال دار اور غیر مسکین کا اس رقم کو لینا جائز نہ ہوگا، اور نہ ہی اس آخری مستحق شخص پر رقم کی واپسی کے لیے کسی قسم کا دباؤ وغیرہ ڈالنا درست ہوگا۔
آج کل بعض لوگ علاقوں میں اسے معمول بنادیا گیا ہے ، حا ل آں کہ فقہاء نے صرف غریب میت کے لیےاس کی اجازت دی تھی، اور پھر جن شرائط اور آداب کی رعایت رکھتے ہوئے اس کی اجازت تھی ان کا بھی قطعاً خیال نہیں کیا جاتا، اس لیے مروجہ حیلہ اسقاط ناجائزہے ؛ اس میں درج ذیل مفاسد پائے جاتے ہیں:
1۔۔ عموماً جو مال اس میں لوگوں کے درمیان گھمایا جاتا ہے وہ میت کی ملکیت ہوتا ہے ، اس میں تمام ورثہ کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا شرعاً جائز نہیں ہے،بالخصوص جب کہ ورثاء میں نابالغ بھی ہوں جن کی اجازت کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔اور ان میں اگر بڑے لوگ بھی ہوں تب بھی ان کی طیب نفس (خوش دلی) عام طور پر نہیں ہوتی۔
2۔۔مال کو اس طرح لوگوں کے درمیان گھمانے سے یہ مال اگلے شخص کی ملکیت نہیں بنتا؛ اس لیے کہ اس میں ہر ایک دوسرے سے مال لیتا رہتا ہے اگر کوئی انکار کردے تو اس پرزبردستی بھی کی جاتی ہے۔ اس لیے اس سے اس میت کا فدیہ بھی ادا نہیں ہوتا۔
3۔۔فدیہ کی ادائیگی میں مصرف کو ادا کرنا ضروری ہے، جب کہ اس حیلہ میں اس کی کوئی رعایت نہیں کی جاتی ،بلکہ اغنیاء بھی اس میں شریک ہوتے ہیں۔
4۔۔اس حیلہ میں آخری شخص کی ملکیت میں مال آجاتا ہے، اس کی مرضی کے بغیر اس سے لے کر آگے دوسروں کو دیاجاتا ہے جو کہ جائز نہیں۔
5۔۔نیز اس حیلہ کو لازم سمجھ کر کرنا خود ایک بدعت ہے؛ لہذا اس سے اجتناب لازم ہے۔
البتہ اگر کسی شخص سے کسی وجہ سے واجبات کا ترک ہوا اور فدیہ میں دینے کے لیے مال نہ ہو، تو فقہاء نے ایسےلوگوں کےلیے ایک صورت تجویز کی ہے کہ اس پر عمل کرنے سے ممکن ہے کہ میت کا ذمہ بھی بری ہو جائے اور وارث پر بھی زیادہ بار نہ ہوگا، وہ یہ ہے کہ جس قدر نمازوں کا وہ فدیہ دے سکتا ہو، خواہ اپنے مال سے یا قرض لے کر میت کی نمازوں کی طرف سے ایسے فقراء ومساکین سے بطورِ حیلہ لین دین کرلیں جو مخلص ہوں، جن کے متعلق یہ یقین ہو کہ وہ اس مال کے مالک ہوجانے کےبعد بھی اپنی رضامندی اور خوشی سے میت کےواجبات میں واپس کردیں ، یعنی فدیہ کسی فقیر کو دے کر قبضہ کرا دیں، پھر وہ فقیر وارث کو ہبہ کر دے اور وارث قبضہ بھی کر لے، اسی طرح ادا کیا جائےاور ہر مرتبہ قبضہ کر لینا شرط ہے ورنہ صدقہ یا ہبہ نہ ہوگا، آخرمیں فقیر وارث کو ہبہ کردے،پھر وارث اپنی رضامندی سے فقیر کو کچھ یا سب کچھ دے دے، پھر امید ہے کہ اللہ تعالی اس کو قبول کر لیں گے، لیکن اس کو عام رواج بناناچاہے فقراء ہوں یا اغنیاء، سب کےلیے یقینا واجب الترک ہے،نیز میت کےذمہ سے بری کرنے کےلیے یہ حیلہ کرناوارث کے ذمہ واجب نہیں، بل کہ محض تبرع ہے اگر ا سے ضروری یا سنت سمجھا جائے گاتو ناجائز اور بدعت ہو جائے گا ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وقال أيضا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ".
(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:240، ط: سعيد)
وفیہ أیضاً:
"إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون -".
"ولا يصح الاستئجار على القراءة وإهدائها إلى الميت؛ لأنه لم ينقل عن أحد من الأئمة الإذن في ذلك. وقد قال العلماء: إن القارئ إذا قرأ لأجل المال فلا ثواب له فأي شيء يهديه إلى الميت، وإنما يصل إلى الميت العمل الصالح، والاستئجار على مجرد التلاوة لم يقل به أحد من الأئمة، وإنما تنازعوا في الاستئجار على التعليم اهـ بحروفه، وممن صرح بذلك أيضا الإمام البركوي قدس سره في آخر الطريقة المحمدية فقال: الفصل الثالث في أمور مبتدعة باطلة أكب الناس عليها على ظن أنها قرب مقصودة إلى أن قال: ومنها الوصية من الميت باتخاذ الطعام والضيافة يوم موته أو بعده وبإعطاء دراهم لمن يتلو القرآن لروحه أو يسبح أو يهلل له وكلها بدع منكرات باطلة، والمأخوذ منها حرام للآخذ، وهو عاص بالتلاوة والذكر لأجل الدنيا اهـ ملخصا".
(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:6، ص:56/57، ط: سعيد)
البحر المحیط الثجاج فی شرح صحیح الإمام مسلم بن الحجاج میں ہے:
"(ومنها): التزام الكيفيّات والهيئات المعيّنة؛ كالذكر بهيئة الاجتماع على صوت واحد، واتخاذ يوم ولادة النبيّ صلى الله عليه وسلم عيدًا، وما أشبه ذلك. (ومنها): التزام العبادات المعيّنة في أوقات معيّنة، لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة؛ كالتزام صيام يوم النصف من شعبان، وقيام ليلته".
(كتاب الجمعة، باب بيان كون الصلاة قصدا، والخطبة قصدا، وكيفية خطبته صلى الله عليه وسلم، ج:17، ص:273، ط: دار ابن الجوزي)
إحیاء علوم الدین میں ہے:
"قال أنس بن مالك رب تال للقرآن والقرآن يلعنه".
(ربع العبادات، كتاب آداب تلاوة القرآن، الباب الأول في فضل القرآن وأهله وذم المقصرين في تلاوته فضيلة القرآن، ج:1، ص:274، ط: دار المعرفة)
البحر الرائق میں ہے:
"والأصل فيه أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو قراءة قرآن أو ذكرا أو طوافا أو حجا أو عمرة أو غير ذلك عند أصحابنا للكتاب والسنة".
(كتاب الحج، باب الحج عن الغير، ج:3، ص:63، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإن لم يترك مالا يستقرض ورثته نصف صاع ويدفع إلى مسكين ثم يتصدق المسكين على بعض ورثته ثم يتصدق ثم وثم حتى يتم لكل صلاة ما ذكرنا، كذا في الخلاصة".
(كتاب الصلاة، الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت، ج:1، ص:125، ط: دار الفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603102711
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن